بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کا مسنون طریقہ اور اس کے لیے مشروع ایام


سوال

 فوتگی والے گھر جا کر تعزیت کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟نیز کتنے دنوں تک تعزیت کرنے جا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کے انتقال پر میت کے متعلقین  و لواحقین سے تعزیت کرنا ( یعنی ان کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا ) سنت سے ثابت ہے،تعزیت کا مسنون  طریقہ یہ ہے کہ  میت  کی تدفین سے پہلے یا اگر اس وقت موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد میت کے گھر جاکر ان کے اعزاء واقرباء سے کچھ تسلی کے کلمات کہہ دیئے جائیں اور پیش آمدہ مصیبت پر صبر کرنے  کا ثواب وغیرہ بتلا کر ان کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی جائےاور ان کے  اور میت کے لئے  دعائیہ جملے کہے جائیں،تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ہے،صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے، البتہ  تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے :

"إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ، وَلَهٗ مَا أَعْطىٰ، وَكُلٌّ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ".

چنانچہ بخاری شريف ميں  ہے:

"عن ‌أبي عثمان قال: حدثني ‌أسامة بن زيد رضي الله عنهما قال: «أرسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم إليه: إن ابنا لي قبض فأتنا، فأرسل يقرئ السلام، ويقول: إن لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب."

حضرت اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک صاحبزادی نے آپ کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک لڑکا وفات پا گیا ہے،اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ نے اس کا جواب کہلا بھیجا کہ سلام کہتے ہوئے:"إن لله ما أخذ، وله ما أعطى، وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر، ولتحتسب"۔

(كتاب الجنائز، ‌‌باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه» إذا كان النوح من سنته ": 2 / 79، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

تعزیت کا وقت میت کے انتقال سے لے کر تین دن تک ہوتا ہے،اسدوران کسی بھی وقت میت کے اہلِ  خانہ اور اعزّہ و اقارب سے تعزیت کی جاسکتی ہے،  البتہ افضل یہ ہے کہ غسل و دفن سے فارغ ہونے کے بعد تعزیت کی جائے، کیوں کہ اس سے پہلے تو میت کے اہلِ خانہ میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوں گے اور نماز جنازہ کے بعد تدفین کا مرحلہ ہوتا ہے ، جس میں تاخیر درست نہیں ہے، اس لیے نماز جنازہ کے بعد تعزیت کرنا اگر تدفین میں تاخیر کا باعث بن رہاہو تو  پھر اس وقت تعزیت نہ کی جائے  ،شرعاً تین دن تک تعزیت کی اجازت ہے،اورتین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ  ہے ،   البتہ اگر کوئی   اس موقع پرموجود نہ ہو، سفر میں ہویاکسی دور جگہ پر ہو،اور ان تین دنوں میں تعزیت نہ کرسکا ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کرسکتا ہے ۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌التعزية لصاحب المصيبة حسن، كذا في الظهيرية ...ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله وهذا إذا لم ير منهم جزع شديد فإن رئي ذلك قدمت ‌التعزية ويستحب أن يعم بالتعزية جميع أقارب الميت الكبار والصغار والرجال والنساء إلا أن يكون امرأة شابة فلا يعزيها إلا محارمها، كذا في السراج الوهاج. ويستحب أن يقال لصاحب ‌التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه وتغمده برحمته ورزقك الصبر على مصيبته وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلا عن الحجة. وأحسن ذلك تعزية رسول الله - صلى الله عليه وسلم - "إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى"…ولابأس لأھل المصیبة أن یجلسوا فی البیت أو في المسجد ثلاثة أیام والناس یأتونھم ویعزونھم."

(كتاب الصلاة ،الباب الحادي والعشرون في الجنائز  : ج:1، ص:167، ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں