بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

 ہمارے علاقے میں تعزیت کے موقع پر لوگ آتے ہیں ، ہر دفعہ علیحدہ طور پر ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں ،کبھی کچھ پڑھ لیا جاتا ہے اور بعض اوقات کوئی چیز پڑھے بغیر یوں ہی ہاتھ  اٹھائے جاتے ہیں ۔ کیا شریعت میں اس کا کوئی ثبوت ہے ؟نیز تعزیت کا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  کسی مسلمان کے انتقال پر میت کے متعلقین سے تعزیت کرنا ( یعنی ان کو تسلی دینا اور صبرو تحمل کی تلقین کرنا ) اور میت کے لیے دعا کرنا سنت سے ثابت ہے،اور دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا دعا کے آداب میں سے ہے،  نیزمیت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا حدیث سے بھی ثابت ہے:

"عن أبي موسى، رضي الله عنه، قال: لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس ... قال: يا ابن أخي أقرئ النبي صلى الله عليه وسلم السلام و قل له: استغفر لي واستخلفني أبو عامر على الناس فمكث يسيراً، ثم مات فرجعت فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم في بيته على سرير مرمل، وعليه فراش قد أثر رمال السرير بظهره وجنبيه، فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر، وقال: قل له: استغفر لي، فدعا بماء فتوضأ ثم رفع يديه، فقال: اللهم اغفر لعبيد أبي عامر، ورأيت بياض إبطيه، ثم قال: اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس."

(صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب غزوة أوطاس ، ج:5 ، ص:197 ، ط: دار الشعب)

لیکن تعزیت کے موقع پر  ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے یا فقط ہاتھ اٹھانے کے عمل کو لازمی سمجھنا    شرعاً درست نہیں ہے۔

تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین کے بعد میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ہے،صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہےجائیں، تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے: ’’إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَه مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَه بِأَجَلٍ مُّسَمًّى‘‘ یا ’’أَعْظَمَ اللّٰهُ أَجْرَكَ وَ أَحْسَنَ عَزَائَكَ وَ غَفَرَ لِمَیِّتِكَ‘‘۔ اس سے زائد بھی ایسا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے جس سے غم ہلکا ہوسکے اور آخرت کی فکر پیدا ہو ،نیز وفات سے لے کر تین دن کے اندر اندر تعزیت کرلینی چاہیے، بلاعذر تعزیت کو تین دن سے زیادہ مؤخر کرنا اور تین دن کے بعد تعزیت کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ شریعت میں بیوہ کے علاوہ  کسی اور کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منع ہے، اور تین دن سے زیادہ تعزیت کا سلسلہ جاری رکھنے میں غم کی تازگی ہے، البتہ اگر تعزیت کرنے والا سفر پر ہو، یا بیماری وغیرہ عذر کی وجہ سے جلدی تعزیت نہ کرسکے تو تین دن بعد بھی تعزیت کرسکتاہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"التعزية لصاحب المصيبة حسن، كذا في الظهيرية، وروى الحسن بن زياد إذا عزى أهل الميت مرة فلا ينبغي أن يعزيه مرة أخرى، كذا في المضمرات. ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله ...ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه، وتغمده برحمته، ورزقك الصبر على مصيبته، وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلاً عن الحجة. وأحسن ذلك تعزية رسول الله صلى الله عليه وسلم:  إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى."

(کتاب الصلوۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز ، الفصل السابع فی الشہید ، ج:1 ، ص:167 ، ط:دارالفکر)

لمعات التنقیح میں ہے  :

"وتستحب التعزية قبل الدفن وبعده إلى ثلاثة أيام، ويكره الجلوس على الأبواب كذا في (درر البحور). ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: ‌غفر ‌اللَّه ‌لميتك، ورزقك الصبر على مصيبتك، وآجرك على موته، وعن بعض مشايخنا: لا بأس بأن يجلسوا للمأتم ثلاثة أيام، ويكره الزيادة عليها، وقال بعضهم: إلى سبعة أيام."

(باب البکاء علی المیت ، ج:4 ، ص:181 ، ط:دارالنوادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں