بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعویذ پتھر کے نیچے دبانے کا حکم / قرآنی آیت پرچہ پر لکھ کر تکیہ کے نیچے رکھنا


سوال

1۔ آ ج کل عاملین حضرات قرآن کی سورت لکھ کر  دیتے ہیں،  اور کہتے ہیں  کہ اس کو  کسی بھاری پتھر کے درمیان وزن کے نیچھے رکھو دو  ۔

کیا ایسا کرنا جائز ہے  یا ناجائز ہے؟

 2۔  قرآ ن کی آیت کو لکھ کر تکیے کے نیچھے رکھنا کیسا ہے؟

جواب

1۔  صورت مسئولہ میں اگر کسی مرض کا علاج مذکورہ طریقہ کے علاوہ ممکن نہ ہو تو اس صورت میں ایسا کرنے کی اجازت ہوگی، بصورت دیگر اجازت نہ ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"واختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو أن يقرأ على المريض والملدوغ أو يكتب في ورق ويعلق أو يكتب في طست فيغسل ويسقى المريض فأباحه عطاء ومجاهد وأبو قلابة وكرهه النخعي والبصري كذا في خزانة الفتاوى.

فقد ثبت ذلك في المشاهير من غير إنكار والذي رعف فلا يرقأ دمه فأراد أن يكتب بدمه على جبهته شيئا من القرآن قال أبو بكر الإسكاف يجوز. وكذا لو كتب على جلد ميتة إذا كان فيه شفاء كذا في خزانة المفتين."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، ٥ / ٣٥٦، ط: دار الفكر )

2۔ صورت مسئولہ میں اگر ایسا کرنا بغرض توہین نہ ہو تو اس کی اجازت ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا كتب اسم الله تعالى على كاغد ووضع تحت طنفسة يجلسون عليها فقد قيل: يكره، وقيل: لا يكره، وقال: ألا ترى أنه لو وضع في البيت لا بأس بالنوم على سطحه كذا هاهنا، كذا في المحيط... وضع المصحف تحت رأسه في السفر للحفظ لا بأس به وبغير الحفظ يكره، كذا في خزانة الفتاوى."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن نحو الدراهم والقرطاس أو كتب فيه اسم الله تعالى، ٥ / ٣٢٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں