بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعمیر سے پہلے بکنگ کے فلیٹ و دکان کی خریدو فروخت،یا سودا منسوخ کرنے کا حکم


سوال

ہمارا کنسٹریکشن کا کام ہے،فلیٹ اور دکانیں بنا کر فروخت کرتے ہیں،اس کے لیے پلاٹ پر کام شروع ہوتے ہی بکنگ شروع کی جاتی ہے،دکان اور فلیٹ کی قیمت طے کردی جاتی ہے ،اور خرید ار قسط وار رقم ادا کرتے ہیں ،اس دوران اگر کوئی خریدار اقساط جمع کرانے میں  ناکام رہتا ہے تو اس کے ساتھ کیا گیا وہ سودا منسوخ  کردیا جاتا ہے،خریداری و فروخت کے معاہدے میں خریدار کو ڈیفالٹ کی صورت میں پہلے سے آگاہ کردیا گیا ہوتا ہے  کہ سودا منسوخ ہو جائے گا ،زیرِ تعمیر فلیٹ و دکانوں کے بارے میں دریافت طلب  یہ ہے کہ :

1) کیا ڈیفالٹ کی صورت میں خریدار کی وصول شدہ رقم واپس کر کے سودا منسوخ کیا جا سکتا ہے؟

2) کیا خریدار اپنی  بکنگ کو اسٹرکچر اور ڈھانچہ بننے سے پہلےآگے کسی دوسری کمپنی کو فروخت کر سکتا ہے؟

3) خریدار فلیٹ ودکان تعمیر سے پہلے  ہمیں واپس فروخت  کر سکتا ہے؟ یا ہم اس سے واپس خرید سکتے ہیں ؟

4) ڈیفالٹ کی صورت میں منسوخ شدہ فلیٹ وغیرہ کو نئی پارٹی کو فروخت کیا جا سکتا ہے؟ 

جواب

1)  صورتِ مسئولہ میں  اگر  فلیٹ اور دکان کا وجود نہیں ہے بلکہ  محض نقشہ بنا ہوا ہے یا مستقبل  میں ان فلیٹ و دکان کی تعمیر کا پلان ہےتو ایسے فلیٹ یا دکان کی بیع  شے معدوم (جس چیز کا فی الحال وجود نہیں) ہونے کی بنا پر  درست نہیں ہے۔ البتہ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ وجود میں آنے سے قبل فلیٹ  یا دکان وغیرہ کی حتمی خرید و فروخت کی بجائے وعدہ بیع کرلیاجائے، اور وعدۂ بیع کی صورت میں کچھ رقم ایڈوانس کے طور پر لے لی جائے اور جب وہ فلیٹ یا دکان وغیرہ  وجود میں آجائے، پھر مکمل طور پرخرید و فروخت کی بات کرلی جائے۔پھر اگر   فلیٹ و دکان کی بکنگ کرتے وقت بائع (بیچنے والا) یہ شرط لگادے کہ’’ اگر اتنی (معینہ) مدت تک مشتری نے کل رقم یا کل رقم کا ایک معینہ حصہ ادا نہ کیا تو یہ بیع (سودا) ختم ہوجائے گی‘‘ تو  یہ خیارِ نقد کہلاتا ہے ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ متعینہ مدت میں اگر مشتری نے کل رقم یا کل رقم کا بعض معین مشروط حصہ ادا نہیں کیا تو معاہدے کو منسوخ کرنا اور اس کی ادا کردہ رقم واپس کرنا جائز ہے۔

2) چوں کہ وعدہ بیع پرحقیقی بیع کے احکامات لاگو نہیں ہوتے،یعنی کسی چیز کی خریداری کا وعدہ کرنے سے وہ چیز کسی کی ملکیت میں نہیں آتی  خصوصا جبکہ صورتِ مسئولہ میں فلیٹ و دکان اب تک موجود بھی نہیں ہیں، اس لئے بطور ِوعدۂ بیع فلیٹ و دکان  بک کروانے کے بعد اسٹرکچر کی تعمیر سے پہلے ان کوآگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے،البتہ بغیر نفع کے خریدار اس گھر کی فائل آگے کسی کو حوالے کر سکتا ہے ،اور جتنی قسطیں خریدار ادا کر چکا ہے اتنی ہی رقم وہ اس سے لے سکتا ہےجس کو فائل حوالے کر رہا ہے،اور  اگر فلیٹ کا ڈھانچا وجود میں آجائے تو  خریدار  اسےبائع سے خرید کر  آگے فروخت کرسکتا ہے۔

3) اسی طرح خریدار  فلیٹ ودکان کی تعمیر سے پہلے واپس مالک کو بھی نفع کے ساتھ نہیں  بیچ سکتا ،البتہ سودا منسوخ کر کے اپنی ادا کردہ رقم واپس لے سکتا ہے۔

4) ڈیفالٹ کی صورت میں منسوخ شدہ فلیٹ وغیرہ کو نئی پارٹی کے حوالے  کر سکتے ہیں  ،البتہ اس حوالے کرنے میں وہی  تفصیل ہے جو جزء نمبر 1 میں بیان کر دی گئی ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلة الاحکام میں ہے:

"(المادة 313) إذا تبايعا على أن يؤدي المشتري الثمن في وقت كذا وإن لم يؤده فلا بيع بينهما صح البيع وهذا يقال له خيار النقد"۔

(الکتاب الاول البیوع،لباب السادسفي بيان الخيارات،الفصل الثالث في حق خيار النقد،(المادة 313) تبايعا على أن يؤدي المشتري الثمن في وقت كذا،ج:1،ص:309،ط:دار الجیل)

الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے:

"(فإن اشترى) شخص شيئاً (على أنه) أي المشتري (إن لم ينقد ثمنه إلى ثلاثة أيام فلا بيع صح) استحساناً، خلافاً لزفر، فلو لم ينقد في الثلاث فسد فنفذ عتقه بعدها لو في يده فليحفظ. (و) إن اشترى كذلك (إلى أربعة) أيام (لا) يصح، خلافاً لمحمد. (فإن نقد في الثلاثة جاز) اتفاقاً؛ لأن خيار النقد ملحق بخيار الشرط، فلو ترك التفريع لكان أولى."

مطلب خيار النقد

"(قوله: على أنه أي المشتري إلخ) وكذا لو نقد المشتري الثمن على أن البائع إن رد الثمن إلى ثلاثة فلا بيع بينهما صح أيضاً، والخيار في مسألة المتن للمشتري؛ لأنه المتمكن من إمضاء البيع وعدمه، وفي الثانية للبائع؛ حتى لو أعتقه صح ولو أعتقه المشتري لايصح، نهر".

(کتاب البیوع،باب خیار الشرط،ج:4،ص:571،ط:سعید)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ."

(کتاب البیوع،فصل فی الشرائط اللذی یرجع الی المعقود علیہ،ج:5ص:138،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں