بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیق طلاق کی ایک صورت کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو کہا: "اگر تم فلانی جگہ گئی تو تمہیں طلاق ہے" اور دوبارہ دوہرا کر ساتھ کہا سنا تم نے (مقصد دوہرانے کا کہ سنا یا نہیں) پھر میں نے سسر صاحب کو فون کیا کہ آپ کی بیٹی کو میں نے کہا: "اگر آپ فلانی جگہ  گئی تو ایک دو تین" ساتھ میں یہ بھی کہا: "جو میں نے آپ کی بیٹی سے کہا وہ واقع ہو جائے گا" ایک دو تین سے میرا مقصد ان کو ڈرانا تھا۔

ایک دو تین کے ساتھ میں نے نہ طلاق کا لفظ جوڑا، نہ تین مقصد تھا، فقط ڈرانا مقصد تھا کہ  ان کے والد اس ایک دو تین سے تین وہ سمجھ کر ڈر جائیں اور اس کو لگے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ تین طلاق کی بات کر رہا ہو۔

ان کی بیٹی (میری بیوی) کو میں نے ایک طلاق معلق دی تو اس میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً آپ نے اپنی بیوی سے یہ جملہ ایک مرتبہ کہا تھا: "اگر تم فلانی جگہ گئی تو تمہیں طلاق ہے" تو اس جملہ  سے آپ کی بیوی  ایک طلاق معلق ہو گئی، اب اگر وہ فلانی جگہ جائے گی تو ایک طلاق واقع ہو جائے گی۔

یہ حکم اُس وقت ہے جب واقعۃ دوسری مرتبہ آپ نے یہ جملہ تاکیداً بیوی کو سنانے کے لیے کہا تھا، نیز یہ حکم اس وقت ہے جب والد کو فون پر ایک دو تین کے ساتھ طلاق کا لفظ نہ کہا ہو، اگر صورتِ حال کچھ مختلف ہو گی تو جواب بھی مختلف ہو گا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقًا مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،الفصل الثالث،420/1،ط:رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص

(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية الخ."

(کتاب الطلاق،رکن الطلاق،جلد:3،صفحہ:230، طبع:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں