بعض تعلیمی اداروں میں لیٹ فیس کی مد میں جرمانہ لگایا جاتا ہے، کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟ اگر درست نہیں ہے تو جو لوگ تاخیر سے فیس جمع کرواتےہیں، ان پر کس قسم کی سزا مقرر کرنی چاہیے؟
صورتِ مسئولہ میں بعض تعلیمی اداروں کی جانب سے لیٹ فیس کی مد میں جو جرمانہ لگایا جاتا ہے، وہ شرعاً ناجائز اور ظلم ہے،مالی جرمانہ میں وصول کردہ رقم بغیر سبب شرعی کے لی جاتی ہے،شرعاً کسی کا مال کسی سببِ شرعی کے بغیر لینا جائز نہیں ہے۔
لہذامذکورہ تعلیمی اداروں کے منتظمین کو چاہیے کہ فیس کی ادائیگی کے لیے مقررہ تاریخ میں اگرکوئی فیس کی ادائیگی ممکن نہیں بنائے تو مالی جرمانہ کے بجائے کوئی جائز متبادل تجویز کرلیں، مثلاً: جس بچے کی فیس مقررہ تاریخ سے لیٹ ہوگی اس کا اخراج کردیا جائے گا، یا اسے امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں ہوگی،وغیرہ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ."(سورة النساء)
ترجمہ:" اے ایمان والوں ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ ، لیکن کوئی تجارت ہوجو باہمی رضامندی سے ہوتو مضائقہ نہیں ۔"(بیان القرآن)
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ."
(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405100392
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن