بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طائف کا زیارت کرنے کے بعد بغیر احرام کے مکہ جانے اور عمرہ وغیرہ کیے بغیر اپنے شہر واپس آنے کا حکم


سوال

میں کچھ سال پہلے حج کرنے کے لیے گیاتھا،اور وہاں سے میں طائف کے شہر گھومنے کی نیت  سے گیا (اس وقت تک مجھے مکہ میں 15دن سے زیادہ ہوچکے تھے)، مکہ میں واپسی پر میں نہ میقات گیا نہ عمرہ ادا کیا اور شہر گھوم کر واپس اپنے وطن    آگیا، سوال یہ ہے کہ کیا عمرہ کرنا لازم تھا؟ اور اگر لازم تھا تو اب اس کا کفارہ کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ طائف میقات سے باہر ہے ، لہذا وہاں سے احرام کے بغیر مکہ مکرمہ آنا صحیح نہیں ہے،  طائف زیارت وغیرہ کے لیے جانے کے بعد  جب دوبارہ مکہ مکرمہ  کسی بھی کام سے آئیں خواہ حج وعمرہ کے لیے یا حرم شریف میں نماز کے لیے یا کسی ضروری کام کے لیے  ہر صورت میں طائف سے آتے ہوئے میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرنا ہوگا ، اور اگر بغیر احرام کے میقات سے گزرگیا تو گناہ گار ہوگا،  اور اس   کو میقات پر دوبارہ آکر احرام باندھنا واجب ہوگا، اگر دوبارہ میقات پر آکر احرام نہیں باندھا تو  دم  لازم آئے گا اور ایک حج یا عمرہ   کی قضا بھی لازم ہوگی، یعنی خواہ حج کرلے یا عمرہ کرلے۔

 صورتِ مسئولہ میں  سائل نے نہ میقات سے احرام کی نیت کی ہے اور نہ ہی عمرہ ادا کیا ہے لہذا سائل پر عمرہ یا حج کی قضا لازم ہے (خواہ عمرہ کرلے یا حج کرلے) اور ایک دم ( بکرا یا بکری یا دنبہ وغیرہ )  ادا کرنا بھی لازم ہوچکا ہے،دم کی ادائیگی حدودِ حرم میں کرنا شرعاً ضروری ہے، چاہے خود حدود حرم میں جاکر دم ادا کردے  یا کسی واقف کار کو  دم کی رقم دے کر اس کے ذریعہ دم ادا کروا دے ،دونوں صورتیں درست ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحرم تأخیر الإحرام عنها) کلّها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مکة) یعني الحرم (ولو لحاجة) غیر الحج، أمّا لو قصد موضعاً من الحلّ کخلیص وجدة، حلّ له مجاوزته بلا إحرام.

(قوله: أي لآفاقي) أي ومن ألحق به کالحرمي والحلي إذا خرجا إلی المیقات کما یأتي، فتقییده بالآفاقي للاحتراز عما لو بقیا في مکانهما، فلایحرم، کما یأتي".

( کتاب الحج، مطلب في المواقیت:ج:2، ص:477، ط: سعید)

البحر العمیق میں ہے :

"وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجه الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیه حجة أو عمرة قضاء ما علیه ودم لترك الوقت."

(الباب السادس فى المواقيت ، مجاوزة الميقات بغير احرام ، ص: 622،ط: المكتبة المكية )

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو جاوز الميقات يريد دخول مكة أو الحرم من غير إحرام يلزمه إما حجة وإما عمرة؛ لأن مجاوزة الميقات على قصد دخول مكة أو الحرم بدون الإحرام لما كان حراما كانت المجاوزة التزاما للإحرام دلالة، كأنه قال: لله تعالى علي إحرام، ولو قال ذلك يلزمه حجة أو عمرة، كذا إذا فعل ما يدل على الالتزام كمن شرع في صلاة التطوع ثم أفسدها يلزمه قضاء ركعتين، كما إذا قال: لله تعالى علي أن أصلي ركعتين، فإن أحرم بالحج أو بالعمرة قضاء لما عليه من ذلك لمجاوزته الميقات، ولم يرجع إلى الميقات، فعليه دم؛ لأنه جنى على الميقات لمجاوزته إياه من غير إحرام، ولم يتداركه فيلزمه الدم جبرا، فإن أقام بمكة حتى تحولت السنة ثم أحرم يريد قضاء ما وجب عليه بدخوله مكة بغير إحرام، أجزأه في ذلك ميقات أهل مكة في الحج بالحرم، وفي العمرة بالحل؛ لأنه لما أقام بمكة صار في حكم أهل مكة فيجزئه إحرامه من ميقاتهم، فإن كان حين دخل مكة عاد في تلك السنة إلى الميقات فأحرم بحجة عليه من حجة الإسلام أو حجة نذر أو عمرة نذر، سقط ما وجب عليه لدخوله مكة بغير إحرام استحسانا، والقياس أن لا يسقط إلا أن ينوي ما وجب عليه لدخول مكة، وهو قول زفر، ولا خلاف في أنه إذا تحولت السنة ثم عاد إلى الميقات ثم أحرم بحجة الإسلام، أنه لا يجزئه عما لزمه إلا بتعيين النية.

وجه القياس: أنه قد وجب عليه حجة أوعمرة بسبب المجاوزة، فلا يسقط عنه بواجب آخر كما لو نذر بحجة أنه لا تسقط عنه بحجة الإسلام.

وكذا لو فعل ذلك بعد ما تحولت السنة، وجه الاستحسان أن لزوم الحجة أو العمرة ثبت تعظيما للبقعة، والواجب عليه تعظيمها بمطلق الإحرام لا بإحرام على حدة، بدليل أنه يجوز دخولها ابتداء بإحرام حجة الإسلام، فإنه لو أحرم من الميقات ابتداء بحجة الإسلام أجزأه ذلك عن حجة الإسلام، وعن حرمة الميقات، وصار كمن دخل المسجد وأدى فرض الوقت، قام ذلك مقام تحية المسجد."

( كتاب الحج ، فصل فى بيان مكان الإحرام ، 2/ 165، ط : رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں