بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعدد طلاق کے علم کے بغیر طلاق نامہ پر دستخط کا حکم


سوال

میں  امریکا میں رہتا تھا، جب پاکستان آیا تو میری شادی ہوگئی پھر ایک بار ہماری لڑائی ہوگئی تو میں نے بیوی کو گھر سے نکال دیا،پھر میری ماں نے طلاق نامہ بنوا دیا اور میں نے اس پر دستخط  کردیے، جب کہ میری نیت نہیں تھی طلاق کی،طلاق کے ایک ماہ بعد میں اور میری بیوی نے رجوع کرلیا (عدت کے دوران) نہ میں نے طلاق کی تحریر کی، نہ پڑھی ، نہ کبھی منہ سے بولی اور نہ مجھے معلوم تھا کہ طلاق کی تعداد کتنی ہے،میری کوئ نیت نہیں تھی  تو کیا یہ طلاق  ہوگئی ہے یہ نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر   واقعۃ سائل نے طلاق نامہ   نہیں بنوایا  تھا اور نہ ہی طلاق نامہ بنوانے کا حکم دیا  اور دستخط کے وقت  سائل کو طلاق کی تعداد کا بھی علم نہیں تھا  بلکہ مذکورہ  طلاق نامہ سائل کی والدہ نے  ازخود  بنوایا تھا  سائل کے سامنے یہ طلاق نامہ پڑھ کر  نہیں سنا یا  تو اایسی  صورت میں مذکورہ طلاق نامہ پر دستخط کر نے کی  وجہ سے  سائل کی بیوی پر صرف  ایک طلا ق  رجعی واقع ہوگئی ہے،  سائل کو اپنی بیوی کی عدت (پوری تین ماہوریاں اگر حمل نہیں تھا  اگر حمل تھا تو بچہ کی پید ائش تک )کے اندر  رجوع کا حق حاصل تھا،لہذا جب سائل نے  عدت کے اندر رجوع کرلیا تو نکاح قائم رہا  اور آئندہ  کے  لیے دو طلاقو ں کا حق حاصل ہے  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق و تلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق، كذا في الخلاصة."

                                                  ( ج:3، ص:246،مطلب فی الطلاق بالکتابۃ ، ط: سعید )

وفی الہدایۃ للمرغینانیؒ:

"(وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض) لقوله تعالى {فأمسكوهن بمعروف} [البقرة:۲۳۱] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك؛ ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها(والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي) وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة. قال (أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة) وهذا عندنا ۔۔۔۔۔۔الخ"

(ج:2،ص:254،ط:دار احياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں