بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیمی اداروں کی تقاریب میں لکھائی والے کپڑے بنانے/ پہننے کی رسم


سوال

عصری تعلیمی اداروں  میں طلباء کے فارغ ہونے پر الوداعی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ایک رسم یہ بنی ہے کہ طلبا کے کپڑوں پر بطور یادگار مختلف قسم کی لکھائی کی جاتی ہے، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ ایسا کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   یہ لایعنی اور  غیر ضروری رسم ہونے کے ساتھ ساتھ مال کا اسراف ہے، اور بعض جگہ عصری ادارے اس اہتمام کو زبردستی لازم کرتے ہوئے ایسے طالب علم سے  پیسے بھی وصول کرتے ہیں، جو ان غیر ضروری امور اور رسموں کو پورا کرنے کے لیے مالی استطاعت نہیں رکھتا، مجبورا ًپیسے دے کر شامل ہوتا ہے، اور اس میں شرعی اور اخلاقی اصولوں کی رعایت نہیں کی جاتی، کپڑوں کے پیچھے یا پھر مفلر وغیرہ پر غیر شرعی جملے لکھے جاتے ہیں، یا لکھائی صحیح بھی ہو لیکن عُمُوماً ٹائی اور پٹہ نما مفلر گلوں میں ڈلوائے جاتے ہیں۔اس لیےصورت مسئولہ میں  مذکورہ رسم کئی غیر شرعی امور  پر مشتمل ہونے  کی وجہ سے جائز  نہیں ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"يَا بَنِيْ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ."(الاعراف:۳۱)
ترجمہ: ’’اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

قرآن کریم میں ہے:

’’وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوْا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ‘‘(الاسراء:۲۶،۲۷)

ترجمہ: ’’اور مال کو بےجا خرچ نہ کرو،بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘

حديث شريف ميں ہے:

"عن المغيرة بن شعبة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (إن الله حرم عليكم: ‌عقوق ‌الأمهات ووأد البنات، ومنع وهات. وكره لكم: قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال)".

ترجمہ: ’’حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے والدین کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، خود بخل کرکے دوسروں سے سوال کرنے، فضول باتوں اور سوالات اور مال ضائع کرنے سے منع فرمایاہے۔‘‘

(صحيح البخاري، باب: ما ينھى عن إضاعة المال، ج:2، ص:848، رقم الحديث:2277، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة)

قرآن کریم میں ہے:

        " ﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾."(آل عمران: ۱۵۶)

ترجمہ:" اے ایمان والوتم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔"(تفسیر عثمانی، ص: ۹۰)

حديث شريف ميں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس منا من تشبه بغيرنا، لاتشبهوا باليهود و لا بالنصاري؛ فإن تسليم اليهود الإشارة بالأصابع و تسليم النصارى الإشارة بالأكف."

 ”جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ،اِرشادفرمایا کہ تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو“۔

(سنن الترمذي، ‌‌أبواب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في كراهية...,، ج:4، ص:425،رقم الحدیث:2695، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:

"عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تشبه بقوم أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس و غيره أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف و الصلحاء الأبرار فهو منهم. اه."

(كتاب اللباس، ج:7، ص:782، رقم الحديث:4347، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"فإن التشبه بهم لا يكره في كل شيء ، بل في المذموم و فيما يقصد به التشبه، كما في البحر (قوله لأن التشبه بهم لا يكره في كل شيء) فإنا نأكل و نشرب كما يفعلون بحر عن شرح الجامع الصغير لقاضي خان، و يؤيده ما في الذخيرة قبيل كتاب التحري. قال هشام: رأيت على أبي يوسف نعلين مخصوفين بمسامير، فقلت: أترى بهذا الحديد بأسا ؟ قال لا قلت: سفيان و ثور بن يزيد كرها ذلك لأن فيه تشبها بالرهبان؛ فقال «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يلبس النعال التي لها شعر» و إنها من لباس الرهبان. فقد أشار إلى أن صورة المشابهة فيما تعلق به صلاح العباد لا يضر، فإن الأرض مما لا يمكن قطع المسافة البعيدة فيها إلا بهذا النوع. اه".

(فروع سمع المصلي اسم الله تعالى فقال جل جلاله أو النبي صلى الله عليه وسلم فصلى عليه، ج:1، ص:624، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں