بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹی وی کیبل آپریٹر کے گھر والوں کے لیے اس کی کمائی استعمال کرنے کا حکم


سوال

چند دن قبل ہم نے مسئلہ معلوم کیا تھا کیبل تار کے متعلق تو  جواب ملا کہ کیبل تار ٹی وی کا ناجائز حرام ہے،  اب پوچھنا یہ ہے کہ ایک شخص کو بولنے کے باوجود اور اس کو معلوم ہونے کے باوجود اس شخص نے  کیبل کا کاروبار شروع کرلیا،  اب وہ شخص گھر کا سربراہ بھی ہے، اس کے  ماتحت بہن بھائی ،اس کے  بچے بھی ہیں،  سارا گھر کا نظام بھی چلا رہاہے،  اب یہ کاروبار حرام ہے تو اس کے بہن بھائی مجبور ہیں، دوسرا  کمانے والا  اور ذرائع آمدنی نہیں  ہیں تو کیا حکم ہے  اس کے گھر والوں کے  لیے؟

جواب

واضح  رہے کہ ٹی وی کیبل کنیکشن کا کام کرنا گناہوں کے کام پر تعاون کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے، گھر کا سربراہ اگر یہ کام کرتا ہے تو اس کے گھر والوں کے لیے یہ حکم ہے کہ اس سے یہ کام  چھڑانے کی پوری کوشش کرتے رہیں،  پوری  کوشش کے باوجود اگر وہ نہ چھوڑے تو  اگر اس کے گھر والوں کے لیے جائز  طریقے سے اپنے اخراجات برداشت کرنا ممکن ہو، تو اس صورت میں ان کے لیے مذکورہ شخص کے مال سے کھانا جائز نہیں اور اگر اپنے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اس کے مال سے کھانا جائز ہے، حرام کھلانے کا گناہ اسی  پر ہوگا۔ نابالغ اور  چھوٹے بچوں  کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ البتہ گھر کے بالغ مردوں پر  لازم ہے کہ خود کما کر کھائیں،  حرام کمانے والے کے مال سے نہ کھائیں۔

البحرالرائق میں ہے : 

"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة".(5/155)

شامی میں ہے:
"وفي جامع الجوامع: اشترى الزوج طعاماً أو كسوةً من مال خبيث جاز للمرأة أكله ولبسها، والإثم على الزوج".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 191)، مطلب في رد المغصوب وفيما لو أبى المالك قبوله، ط: سعید)

شامی میں ہے:

وفي الخانية: امرأة زوجها في أرض الجور، وإن أكلت من طعامه ولم يكن عين ذلك الطعام غصبا فهي في سعة من أكله وكذا لو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من تناوله والإثم على الزوج.

(5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)  

  فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144208201227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں