میں گزشتہ پانچ سال سے اپنی ماسی کو زکاۃ کے پیسے دے رہی تھی۔ جب میں نے اُسے اپنے کام پر رکھا تو اُس سے دریافت کیا کہ کیا وہ سید ہے؟ اُس نے کہا کہ وہ سید نہیں ہے۔ لیکن مجھے کل معلوم ہوا کہ وہ دراصل سید ہے اور اُس نے خود اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اُس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا تاکہ اُسے زکاۃ مل سکے۔
میں اب تک اُسے تقریباً پانچ لاکھ روپے زکاۃ کے طور پر دے چکی ہوں۔ براہِ کرم راہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں میری زکاۃ ادا ہوئی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے مذکورہ ماسی کے مستحق زکاۃ ہونے سے متعلق اپنے طور پر تحقیق کی ، ماسی سے معلوم کیا اور اس نے غیرسید ہونے کااقرار کیا اور اس بنیاد پر آپ نے مستحق جان کر اسے زکاۃ کی رقم دی ہے تو زکاۃ ادا ہوچکی ہے ، ماسی جھوٹ بول کر زکاۃ کی رقم لینے کی وجہ سے گناہ گار ہوئی ہیں۔ سائلہ پر اس زکاۃ کی رقم کا دوبارہ نکالنا لازم نہیں ۔ البتہ اب جب ماسی کے غیرسید ہونے کا علم ہوچکا ہے تو آئندہ زکاۃ کی رقم ماسی کو نہ دی جائے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا شك وتحرى فوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليهأو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، وكذا إن لم يظهر حاله عنده، وأما إذا ظهر أنه غني أو هاشمي أو كافر أو مولى الهاشمي أو الوالدان أو المولودون أو الزوج أو الزوجة فإنه يجوز وتسقط عنه الزكاة في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، ولو ظهر أنه عبده أو مدبره أو أم ولده أو مكاتبه فإنه لا يجوز عليه أن يعيدها بالإجماع، وكذا المستسعى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - هكذا في شرح الطحاوي.
وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف، هكذا في التبيين."
(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، ج:1، ص:190، ط:مكتبه رشيديه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100935
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن