مہنگائی کے اس دور میں سید کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟ اگر بات کی جائے ہدیہ، تحفہ ،صدقہ نافلہ کی تو اس دور میں عام آدمی اپنے کھانے پینے گزر بسر کا انتظام بمشکل پورا کرتا ہے، جس کی وجہ سے بہت ساروں سے وہ زکوٰۃ جو وہ پچھلے سالوں میں دیتے تھے ابھی ان سے ساقط ہوئی ہے تو ہدیہ تحفہ تو دور کی بات ہے؛ لہذا اس دور میں جب کہ لوگوں میں بخل بھی بڑھ گیا اور مہنگائی بھی زیادہ ہوئی سید کی مدد اگر زکوٰۃ سے کی جائے تو اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
واضح رہے کہ سید کو زکات دینا اور اس کا لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:"یہ صدقات (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے"۔
صاحبِ حیثیت افراد کو چاہیے کہ وہ سید کی امداد زکات اور صدقات واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں ،یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ اور سید کے ساتھ تعاون سے آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔البتہ اگر کسی جگہ سے بھی غیر زکات مثلاً : صدقات نافلہ ،عطیات وغیرہ سے انتظام نہ ہو اور سخت مالی تنگدستی ہو کہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا اندیشہ ہو ،تو ایسی صورت میں صاحب ِ نصاب شخص کسی مستحق ِ زکات شخص کو زکات کی رقم کا مالک بنادے، اس کے بعد اس سے یوں کہے کہ فلاں شخص (سید) غریب ہے اور سید ہونے کی وجہ سے زکات نہیں لے سکتا ،تم یہ رقم یا جو چاہو اپنی خوشی سے اپنی طرف سے دے دو تمہیں بہت اجر و ثواب ملے گا تو اس طرح کرنے سے صاحب ِ زکات شخص کی زکات ادا ہوجائے گی اور سید کی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی اور جو شخص سید کو رقم دے گا وہ بھی اجر وثواب کا مستحق ہوگا ۔
البحر الرائق میں ہے :
"(قوله: و بني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم لحديث البخاري «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة» ولحديث أبي داود «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة»۔۔۔۔۔۔۔وقال المصنف في الكافي: وهذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة أما التطوع والوقف فيجوز الصرف إليهم؛ لأن المؤدي في الواجب يطهر نفسه بإسقاط الفرض فيتدنس المؤدى كالماء المستعمل، وفي النفل تبرع بما ليس عليه فلا يتدنس به المؤدى كمن تبرد بالماء اهـ".
(کتاب الزکات،باب مصرف الزکات،ج:2،ص:265،دارالکتاب الاسلامی)
فتاوی شامی میں ہے :
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن. وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم
(قوله: أن الحيلة) أي في الدفع إلى هذه الأشياء مع صحة الزكاة.(قوله ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم".
(کتاب الزکات،باب مصرف الزکات والعشر،ج:2،ص:345،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503100403
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن