میں سرکاری ملازمہ ہوں اور تنخواہ سے مہینہ مشکل سے گزرتا ہے۔اور میرے شوہر مسجد میں امام ہیں۔اورسید ہیں گھر میں کوئی بیماری علاج کی ضرورت ہو جائے تو ہمارے پاس گنجائش نہیں ہوتی، پھر میرے شوہر زکاة كي رقم مجھے دیتے ہیں؛ تاکہ میں گھر کا خرچہ علاج وغیرہ کر سکوں۔کیا ایساکرنا درست ہے جب کہ میرے پاس اور کوئی مال یا سونا چاندی سامان نہیں ہے ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ سیدہ بھی نہیں ہیں، اور ان کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال و دولت بھی نہیں ہے، تو سائلہ زکات لے سکتی ہیں۔ اور اگر کوئی شخص ان کے شوہر کو (جو کہ سید ہیں) زکاۃ دے، اور شوہر زکات دینے والے پر واضح کر دیں کہ وہ سید ہونے کی وجہ سے زکات کے حق دار نہیں، اور ان کی اہلیہ زکات کی مستحق ہے، اور زکات دینے والا ان کو زکات آپ تک پہنچانے کا وکیل بنادے، یا زکات دینے والا آپ کے شوہر کو اُن کی صواب دید کے مطابق کسی بھی مستحق تک زکات پہنچانے کا وکیل بنادےتو آپ کے شوہر کے لیے مذکورہ عمل درست ہے، اور آپ کے لیے اس طرح زکات لینا جائز ہوگا، نیز زکات ادا کرنے والے کی زکات بھی ادا ہو جائے گی۔
زکات کے بقدر مال و دولت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ملکیت میں ضروری اخراجات سے زائد رقم یا استعمال سے زائد اتنا سامان نہیں ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو آپ مستحق ہوں گی۔
جو رقم ماہانہ اخراجات میں صرف ہوجائے وہ ضرورت میں داخل ہے، نیز جو چیزیں ایک مرتبہ بھی استعمال ہوگئیں (مثلًا دلہن کے کپڑے) وہ استعمال کی اشیاء ہیں۔ وہ اشیاء جو ابھی تک استعمال نہیں ہوئیں اور پورا سال ان کے استعمال کی نوبت نہ آئے وہ استعمال سے زائد شمار ہوں گی۔
"مبسوط" میں ہے:
" لِأَنَّ مَصْرِفَ الصَّدَقَاتِ الْفُقَرَاءُ بِالنَّصِّ فَإِنْ صَرَفَ إلَى زوجة غَنِيٍّ وَهِيَ فَقِيرَةٌ، أَوْ إلَى بِنْتٍ بَالِغَةٍ لِغِنًى، وَهِيَ فَقِيرَةٌ جَازَ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى؛ لِأَنَّهُ صَرَفَهَا إلَى الْفَقِيرِ وَاسْتِحْقَاقُهَا النَّفَقَةَ عَلَى الْغِنَى لَا يُخْرِجُهَا مِنْ أَنْ تَكُونَ مَصْرِفًا كَأُخْتٍ فَقِيرَةٍ لِغَنِيٍّ فُرِضَ عَلَيْهِ نَفَقَتُهَا وَأَبُو يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - قَالَ: لَا يَجُوزُ؛ لِأَنَّهَا مَكْفِيَّةُ الْمُؤْنَةِ بِاسْتِحْقَاقِ النَّفَقَةِ عَلَى الغني بِالْإِنْفَاقِ فَهُوَ نَظِيرُ وَلَدٍ صَغِيرٍ لِغَنِيٍّ وَكَذَلِكَ لَوْ صَرَفَهَا إلَى هَاشِمِيٍّ أَوْ مَوْلًى هَاشِمِيٍّ، وَهُوَ يَعْلَمُ بِحَالِهِ لَا يَجُوزُ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِمُحَمَّدٍ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ» وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ الْأَرْقَمَ بْنَ أَبِي الْأَرْقَمِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَاسْتَتْبَعَ أَبَا رَافِعٍ فَجَاءَ مَعَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا رَافِعٍ إنَّ اللَّهَ تَعَالَى كَرِهَ لِبَنِي هَاشِمٍ غُسَالَةِ النَّاسِ، وَإِنَّ مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ»."
(المبسوط للسرخسي، كتاب الزكاة، باب عشر الأرضين، صفحة -12,ج ٣, ط: دار المعرفۃ ،بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209201667
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن