ہم جماعت کے ساتھ تبلیغی سفر میں ہیں اور میرا تعلق سید گھرانے سے ہے۔یہاں کے لوگ کوئی ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں تو صدقے کا نام دیتے ہیں تو یہ کھانا میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمایں ۔
واضح رہے کہ سید لوگوں کے لیے صدقات واجبہ مثلا زکوۃ ، صدقہ فطر وغیرہ لینا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے البتہ نفلی صدقات اس کے لیے لینا اور استعمال کرنا جائز ہےلہذا صورت مسئولہ میں چونکہ لوگ تبلیغ والوں کا اکرام نفلی صدقہ کے طور پر کرتے ہیں تو سائل کے لیے وہ ضیافت کا کھانا کھانا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وجازت التطوعات من الصدقات و) غلة (الأوقاف لهم ) أي لبني هاشم سواء سماهم الواقف أو لا على ما هو الحق كما حققه في الفتح لكن في السراج وغيره إن سماهم جاز وإلا لا.
(قوله: وجازت التطوعات إلخ) قيد بها ليخرج بقية الواجبات كالنذر والعشر والكفارات وجزاء الصيد إلا خمس الركاز فإنه يجوز صرفه إليهم كما في النهر عن السراج"۔
(کتاب الزکوۃ باب مصرف الزکوۃ ج نمبر ۲ س نمبر ۳۵۱،ایچ ایم سعید)
المبسوط للسرخسي ـ میں ہے:
"وكذلك لو صرفها إلى هاشمي أو مولى هاشمي وهو يعلم بحاله لا يجوز لقوله صلى الله عليه وسلم: "لا تحل الصدقة لمحمد ولا لآل محمد". وعن بن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم استعمل الأرقم بن أبي الأرقم على الصدقات فاستتبع أبا رافع فجاء معه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "يا أبا رافع إن الله تعالى كره لبني هاشم غسالة الناس وإن مولى القوم من أنفسهم"، وهذا في الواجبات فأما في التطوعات والأوقاف فيجوز الصرف إليهم وذلك مروي عن أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى في النوادر لأن في الواجب المؤدى يطهر نفسه بإسقاط الفرض فيتدنس المؤدى بمنزلة الماء المستعمل.وفي النفل يتبرع بما ليس عليه فلا يتدنس به المؤدى كمن تبرد بالماء. فقط والله أعلم"
(کتاب الزکوۃ، مصارف العشر و الزکوۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۲ ،دار المعرفۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307102480
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن