بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کا لفظ صرف حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے لیے بولا جاتا ہے تو دیگر سادات کا کیسے علم ہوگا


سوال

1: سید افراد ان پانچ خاندانوں کی اولاد ہیں اور ان کو زکات نہیں دے سکتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت حارث رضی اللہ عنہ ،حضرت جعفر رضی اللہ عنہ، حضرت عقیل رضی اللہ عنہ۔ ان میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ باقی جو تین صحابہ ہیں ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا رشتہ ہے؟

2: جب صرف حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نسل والوں کے ساتھ سید لگایا جا سکتا ہے تو اگر کوئی باقی چار صحابہ کی اولاد میں سے ہو یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی اور بیٹے کی اولاد میں سے ہو تو اس کا کیسے پتہ چلے گا کہ اس کو زکات نہیں دے سکتے؟

جواب

1) حارث بن عبد المطلب بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرح  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاہیں، اور حضرت جعفر اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہما  ابو طالب کے بیٹے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بھائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی  ہیں۔

2) یہ بات درست ہے کہ عرف میں سید کا لفظ صرف حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد پر بولا جاتا ہے،لیکن زکوٰۃ نہ دینے کے حکم میں ان کے ساتھ حضرت حارث، حضرت عباس، حضرت جعفر اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہم کی اولاد بھی شامل ہے۔ لہذا جو شخص مذکورہ بالا سادات کی اولاد میں سے ہو اس کو خود زکات اور صدقاتِ واجبہ سے بچنا چاہیے، تاہم اگر زکات دینے والے نے اپنی طرف سے غور و فکر کرنے کے بعد زکات ادا کی اور اس کا غالب گمان یہی تھا کہ یہ شخص زکات کا مستحق ہے یعنی بنو ہاشم میں سے نہیں ہے اور بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ شخص بنو ہاشم میں سے تھا تو زکات ادا ہو جائے گی۔بنوہاشم کے دیگر خاندانوں کا تعارف ان کی نسبت سے ہوسکتا ہے، مثلًا: علوی یا اعوان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دیگر اولاد کی نسل کے ساتھ لگایا جاتا ہے، اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کے ساتھ عباسی کی نسبت لگائی جاتی ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما إذا ظهر أنه غني أو هاشمي أو كافر أو مولى الهاشمي أو الوالدان أو المولودون أو الزوج أو الزوجة فإنه يجوز وتسقط عنه الزكاة في قول أبي حنيفة ومحمد  رحمهما الله تعالى ...وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف هكذا في التبيين".

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، 1/ 190، ط: رشيدية)

الحاوی للفتاوی میں ہے:

"إن اسم الشريف كان يطلق في الصدر الأول على كل من كان من أهل البيت سواء كان حسنيا أم حسينيا أم علويا، من ذرية محمد بن الحنفية وغيره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفريا أم عقيليا أم عباسيا، ولهذا تجد تاريخ الحافظ الذهبي مشحونا في التراجم بذلك يقول: الشريف العباسي، الشريف العقيلي، الشريف الجعفري، الشريف الزينبي، فلما ولي الخلفاء الفاطميون بمصر قصروا اسم الشريف على ذرية الحسن والحسين فقط، فاستمر ذلك بمصر إلى الآن، وقال الحافظ ابن حجر في كتاب الألقاب: الشريف ببغداد لقب لكل عباسي، وبمصر لقب لكل علوي انتهى".

(العجاجة الزرنبية في السلالة الزينبية2/ 39، ط: دار الفكر)

منهاج السنۃ النبویۃ میں ہے:

"وأما العمومة وبنو العمومة، فأبو طالب كان له أربعة بنين: طالب، وعقيل، وجعفر، وعلي. وطالب لم يدرك الإسلام، وأدركه الثلاثة فآمن علي، وجعفر في أول الإسلام، وهاجر جعفر إلى أرض الحبشة، ثم إلى المدينة عام خيبر".

(المنهج الثالث عند الرافضي في الأدلة المستندة إلى السنة على إمامة علي رضي الله عنه، 7/ 304، ط: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)

سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادمیں ہے:

"اختلف في عدد أولاد عبد المطلّب فقيل: هم ثلاثة عشر وقيل: اثنا عشر، وقيل: عشرة، وقيل: تسعة. فمن قال: أنهم ثلاثة عشر تلاهم الحارث، وأبو طالب، والزّبير، وعبد الكعبة، وحمزة، والعبّاس، والمقوّم، وحجل واسمه المغيرة، وضرار وقثم، وأبو لهب، والغيداق. فهؤلاء اثنا عشر، وعبد الله أبو رسول الله صلى الله عليه وسلّم".

(‌‌‌‌جمّاع أبواب أعمامه وعماته وأولادهم وأخواله صلى الله عليه وسلم، الباب الأول في ذكر أعمامه وعماته صلى الله عليه وسلم على سبيل الإجمال، 11/ 82، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں