بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کا غیر سید سے نکاح کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کےبارے میں  کہ ہمارے پڑوس میں سید رہتے تھے اور ان کا  ہمارے گھر میں آنا جانا تھا ،دس بارہ سال سےوہ ہمارے پڑوس سے جاچکے ہیں اور وہ خود کو سید شیرازی کہتے ہیں اور ان کے رشتہ دار سید سجلالی ہیں ،ہم نے سنا ہے کہ سید کا رشتہ سید میں ہوتا ہے عام قومیت میں نہ یہ رشتہ دیتے ہیں اور نہ ہی لیتے ہیں اور اب سید سجلالی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے سیدوں کے بجائے عام قوم سے رشتہ لیں جن کی قومیت گجر زات جاراخیل ہے ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ عام قوم کا سید قوم سے رشتہ ہو سکتا ہے یا نہیں ؟اگر ہو سکتا ہے تو اس کی کیا شرائط ہیں؟ شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  سید کا لفظ  ابتدائی عہد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ، حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ان کی نسل پر بولا  جاتا تھا،  لیکن بعد میں یہ اصطلاح خاص ہوگئی، چنانچہ  ہمارے عرف میں ’’سید‘‘  صرف وہ گھرانے  ہیں  جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب  ’’سید‘‘ ہے، اور یہ  ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں سید لڑکے کا نکاح غیر سید عورت سے جائزہے اور البتہ غیر سید مرد کا نکاح سید ہ عورت سےعورت کےولی کی اجازت کے ساتھ  جائزہے،کیونکہ  کفاءت (برابری ) کی رعایت کا اعتبار  عورت کی جانب میں کیا گیا ہے ،اس لئے کہ عالی نسب سیدہ  عورت  کا کفو (برابر)عالی نسب مرد ہے،جب کہ عالی نسب مرد کا اپنے سے کم مرتبہ والی عورت سے   نکاح کر نے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ مرد اپنے سے کم درجہ والی عورت کو بھی قبول کر لیتا ہے۔نیز خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح کیا۔

الحاوي للفتاوي میں ہےـ:

"إن اسم الشريف كان يطلق في الصدر الأول على كل من كان من أهل البيت سواء كان حسنيًا أم حسينيًا أم علويًا، من ذرية محمد بن الحنفية وغيره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفريًا أم عقيليًا أم عباسيًا، ولهذا تجد تاريخ الحافظ الذهبي مشحونًا في التراجم بذلك يقول: الشريف العباسي، الشريف العقيلي، الشريف الجعفري، الشريف الزينبي، فلما ولي الخلفاء الفاطميون بمصر قصروا اسم الشريف على ذرية الحسن والحسين فقط، فاستمر ذلك بمصر إلى الآن، وقال الحافظ ابن حجر في كتاب الألقاب: الشريف ببغداد لقب لكل عباسي، وبمصر لقب لكل علوي، انتهى.
ولا شك أن المصطلح القديم أولى وهو إطلاقه على كل علوي وجعفري وعقيلي وعباسي، كما صنعه الذهبي، وكما أشار إليه الماوردي من أصحابنا."

(کتاب الادب و الرقاق :39/2: ط دارالفکر بیروت)

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:

"فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لا يتعير بأن يكون تحت الرجل من لا يكافئوه."

(کتاب النکاح الباب الخامس (290/1) ط مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ) 

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح، ولا تعتبر في جانب النساء للرجال، كذا في البدائع."

(  کتاب النکاح الباب الخامس (290/1) ط مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)

درمختار مع ردالمحتارمیں ہے:

"الكفاءة معتبرة من جانبه لا  تعتبر  :تعليل للمفهوم، وهو أن الشريف لا يأبى أن يكون مستفرشا للدنيئة (من جانبها) لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش وهذا عند الكل في الصحيح."

(شامی  کتاب النکاح باب الکفاءۃ (84/3)ط ایچ ایم سعید)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"وإنما تحل في الصورة الرابعة وهو رضا الولي بغير الكفء مع علمه بأنه كذلك."

( شامی کتاب النکاح  باب الولی  (57/3) ط ایچ ایم سعید)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

" سید اگرکسی گوجر کی لڑکی سے نکاح کر لے تو کفاءت کی وجہ سے اس نکاح کو ناجائز نہیں کہاجائے گا ، ہاں  ! سید کی لڑکی اگر بغیر ولی کی اجازت کے کسی گوجر وغیرہ سے نکاح کر لے تو اس کو ناجائز کہاجائے گا،کفاءت کی رعایت لڑکی کے حق میں ہے ،یہ شریعت کا مسئلہ ہے فقہ کی کتابوں میں لکھاہوا ہے۔فقط واللہ اعلم."

(کتاب النکاح باب الکفاءۃ (625/11)ط  دارالافتاءجامعہ فاروقیہ کراچی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں