حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا کوئی شخص عامل ہو تو ان کو مال زکات میں سے تنخواہ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ جبکہ عامل مصرف زکات میں سے ہے۔
اگر عامل سادات میں سے ہو تو اسے زکات وصول کرنے کی اجرت زکات میں سے دینا جائز نہیں ہوگا، نیز عاملینِ صدقہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے زکات اور عشر جمع کرنے پر مامور ہوں، ان لوگوں کو اسلامی حکومت زکات کی مد سے تنحواہ (یعنی بقدر محنت اجرت) دے سکتی ہے، کیونکہ اسلامی حکومت میں امیرالمؤمنین فقراء کا وکیل ہوتا ہے، لیکن چونکہ ہمارے دیار میں آج کل اسلامی حکومت اور اسلامی نظامی نافذ العمل نہیں ہے اس لئے عاملین کا وجود بھی نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يحل للعامل الهاشمي تنزيها لقرابة النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شبهة الوسخ وتحل للغني كذا في التبيين فإن عمل الهاشمي عليها ورزق من غيرها لا بأس به هكذا في الخلاصة."
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، 1/ 188، ط: دار الفكر)
حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’آج کل جو اسلامی مدارس اور انجمنوں کے مہتمم یا ان کی طرف سے بھیجے ہوئے سفیر صدقات زکات وغیرہ مدارس اور انجمنوں کے لئے وصول کرتے ہیں، ان کا وہ حکم نہیں جو عاملینٍ صدقہ کا اس آیت میں مذکور ہے، کہ زکات کی رقم سے ان کی تنخواہ دی جاسکے، بلکہ ان کو مدارس اور انجمنوں کی طرف سے جدا گانہ تنخواہ دینا ضروری ہے۔‘‘
(معارف القرآن: سورة التوبة(الآیة:6۰) (4/ 399)،ط۔مکتبہ معارف القرآن، طبع جدید:1429ھ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101081
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن