بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ الطلاق میں طلاق کی نیت کرنے سے طلاق کا حکم


سوال

اسحٰق نے  بیک وقت دل میں کہا طلاق کی نیت ہے اسی وقت زبان سے سورہ طلاق کی تلاوت شروع کردی اسحٰق کی طلاق کی نیت نہ تھی جس وقت وہ سورہ طلاق میں لفظ طلاق پڑھ رہا تھا اسی وقت اس نے بغیر طلاق کی نیت دل میں کہاکہ طلاق کی نیت ہے،کیا  طلاق ہوئی یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے  واقع ہونے کے لیے زبان   سےطلاق کے الفاظ ادا کرنا اور  بیوی کی طرف  الفاظ ِطلاق کی نسبت کرنا ضروری ہے ،تبھی طلاق واقع  ہوتی ہے ،محض لفظ "طلاق " کی نیت کرنے یا دل میں خیال آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا سورۂ طلاق پڑھتے وقت  دل میں طلاق کی نیت کرنے سے   کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(قوله: و ركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر...وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظًا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه، كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:230، ط:سعيد)

      فتاوی شامی میں ہے:

’’لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها. "

( کتاب الطلاق،ج:3 ،ص:250، ط؛ سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"لا يقع في ‌جنس ‌الإضافة إذا لم ينو لعدم الإضافة إليها."

(كتاب الطلاق ،الفصل السابع في الطلاق بالفاظ الفارسية،ج:1،ص:382 ،ط:دارالفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں