بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سوارہ میں کیے گیے نکاح کا حکم


سوال

 ایک ہی قوم اور برادری کے ایک لڑکے اور لڑکی نے باہمی رضا مندی کے ساتھ اپنے اپنے گھر سے بھاگ کر عدالت کے ذریعے نکاح کر لیا، جس کے بعد لڑکے اور لڑکی کے دونوں خاندانوں میں تنازع کھڑا ہو گیا ، اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے بطورِ صلح لڑکے کے والد نے فریق مخالف کو زمین کی اور پیسے کی پیشکش کی مگر لڑکی کے والد اور خاندان نے اس پیشکش کو مسترد کر کے صلح کے لیے ایک ہی شرط رکھی کہ ہم اپنی بیٹی کے بدلے وٹے سٹے کی شکل میں آپ کی بیٹی اپنے بیٹے کے نکاح میں لیں گے ،جب کہ اس شرط پر صلح کے لیے لڑکے کا والد کسی بھی طرح آمادہ نہیں ہو رہا تھا، اور یہ جھگڑا دو تین سال تک اسی طرح چلتا رہا جس کے بعد دونوں خاندان کے سر کردہ افراد اس تنازع کے حل اور مصالحت کے لیے اپنے علاقے کے معززین اور سرداروں کے پاس جانے پر متفق ہو گئے ،اور پھر علاقے کے معززین کی پنچایت میں علاقے کے سردار نے لڑکے کے خاندان کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے لڑکی کے خاندان کی شرط پر صلح کرنے کا فیصلہ سنا دیا، اور یوں مجبوراً لڑکے کے والد نے اپنی سات آٹھ سالہ کمسن نا بالغ بچی کا شرعی نکاح فریق مخالف کے سات آٹھ سالہ کمسن نا بالغ بچے کے ساتھ اسی پنچایت میں ہی کر دیا، جس کے بعد پنچایت کی یہ ساری کاروائی اسٹام پیپر کے ذریعے محفوظ بھی کر دی گئی ، اور اب صورتحال یہ ہے کہ لڑکی بالغ ہو چکی ہے اور وہ سختی کے ساتھ پنچایت میں کیے گئے اپنے اس رشتے کو مسترد کر رہی ہے، اور لڑکا بھی اب جوان ہو چکا ہے، مگر فکر معاش میں لڑکے کے غیر ذمہ دارانہ رویہ اور لڑکی کے انکار پر لڑکی کا خاندان تحفظات اور تشویش کا شکار ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ بالا تفصیل کے تناظر میں پنچایت کے فیصلے پر کیا گیا نکاح منعقد ہوا یا نہیں ، اگر نکاح منعقد ہو گیا تو کیا لڑکی کے حالیہ انکار اور لڑکے کی معاشی فکری غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے اس نکاح کو ختم کرنے کی شریعت کوئی اجازت و تجویز دیتی ہے یا بہر صورت لڑکی کو اس نکاح اور شادی پر رضامند ہونا پڑے گا ؟ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ سوارہ کی رسم ایک قبیح رسم ہے،جس کو ختم کرنا ضروری ہے،اس میں عام طورپر ولی  لڑکی کے مفاد کی صریح خلاف ورزی کرجاتاہے،اور والد اور دادا  چوں کہ ولی اقرب ہیں،اور ولی اقرب جب نابالغ لڑکی کا نکاح کرے تو بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ حاصل نہیں ہوتا،البتہ اگر والد یا دادا  معروف بسوء الاختیار ہوں یعنی اس سے پہلے بھی اس سے اس طرح کا عمل ایک مرتبہ بھی سرزد ہوا ہے،کہ انہوں نے اپنی نابالغ بچی کے نکاح میں غبن کیا اور اپنے اختیار کو غلط استعمال کیا ہو،تو اس صورت میں مذکورہ معاملہ میں  سوء اختیار کی بنیاد پر لڑکی کو خیارِ بلوغ حاصل ہوگا،لیکن اگر وہ معروف بسوء الاختیار نہ ہوں ،تو پھر مذکورہ صورت میں  لڑکی کو خیارِ بلوغ حاصل نہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں  والد کی مرضی سے مذکورہ نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہو چکا ہے،لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہیں رہا،باقی اگر لڑکی کسی حال میں گھر بسانے پر آمادہ نہیں تو علیحدگی کے لیے لڑکے سے طلاق یا شرعی خلع حاصل کر کے علیحدگی اختیار کرنے کی گنجائش ہے،علیحدگی کے لیے محض نکاح کو یک طرفہ مسترد کر دینا کافی نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه.....فأنواع: (منها) أن يكون مالا فلا يصح الصلح على الخمر والميتة والدم وصيد الإحرام والحرم وكل ما ليس بمال؛ لأن في الصلح معنى المعاوضة فما لا يصلح عوضا في البياعات لا يصلح بدل الصلح."

(کتاب الصلح، فصل في الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه، ج6، ص42، ط: دار الکتب العلمیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو زوج ولده الصغير من غير كفء بأن زوج ابنه أمة أو ابنته عبدا أو زوج بغبن فاحش بأن زوج البنت ونقص من مهرها أو زوج ابنه وزاد على مهر امرأته؛ جاز وهذا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، كذا في التبيين وعندهما لا تجوز الزيادة والحط إلا بما يتغابن الناس فيه قال بعضهم: فأما أصل النكاح فصحيح والأصح أن النكاح باطل عندهما هكذا في الكافي والصحيح قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في المضمرات وأجمعوا على أنه لا يجوز ذلك من ‌غير ‌الأب والجد ولا من القاضي، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاف فيما إذا لم يعرف سوء اختيار الأب مجانة أو فسقا أما إذا عرف ذلك منه فالنكاح باطل إجماعا وكذا إذا كان سكران لا يصح تزويجه لها إجماعا كذا في السراج الوهاج، وإن كانت الزيادة والنقصان بحيث يتغابن الناس في مثله يجوز بالاتفاق."

(کتاب النکاح، ج1، ص294، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا (وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق، أو شرير، أو فقير، أو ذي حرفة دنية لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة بحر (وإن كان المزوج غيرهما) أي غير الأب وأبيه ولو الأم أو القاضي أو وكيل الأب، لكن في النهر بحثا لو عين لوكيله القدر صح.........(لا يصح) النكاح (من غير كفء أو بغبن فاحش أصلا).....(قوله لم يعرف منها إلخ) أي من الأب والجد، وينبغي أن يكون الابن كذلك بخلاف المولى فإنه يتصرف في ملكه، فينبغي نفوذ تصرفه مطلقا كتصرفه في سائر أمواله رحمتي فافهم (قوله مجانة وفسقا) نصب على التمييز وفي المغرب الماجن الذي لا يبالي ما يصنع وما قيل له ومصدره المجون والمجانة اسم منه والفعل من باب طلب. اهـ. ......وفي شرح المجمع حتى لو عرف من الأب سوء الاختيار لسفهه أو لطمعه لا يجوز عقده إجماعا. اهـ

(قوله وإن عرف لا يصح النكاح) استشكل ذلك في فتح القدير بما في النوازل: لو زوج بنته الصغيرة ممن ينكر أنه يشرب المسكر، فإذا هو مدمن له وقالت لا أرضى بالنكاح أي ما بعد ما كبرت إن لم يكن يعرفه الأب بشربه وكان غلبة أهل بيته صالحين فالنكاح باطل لأنه إنما زوج على الظن أنه كفء اهـ قال إذ يقتضي أنه لو عرف الأب بشربه فالنكاح نافذ مع أن من زوج بنته الصغيرة القابلة للتخلق بالخير والشر ممن يعلم أنه شريب فاسق فسوء اختياره ظاهر. ثم أجاب بأنه لا يلزم من تحقق سوء اختياره بذلك أن يكون معروفا به فلا يلزم بطلان النكاح عنه تحقق سوء الاختيار مع أنه لم يتحقق للناس كونه معروفا بمثل ذلك. اهـ.

والحاصل: أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيئ الاختيار واشتهر به عند الناس، فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله، بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله، ولو كان المانع مجرد تحقق سوء الاختيار بدون الاشتهار لزم إحالة المسألة أعني قولهم ولزم النكاح ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا."

(کتاب النکاح، باب الولی، ج3، ص68، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں