بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوزوکی کمپنی سے قسطوں پر بائیک لینے کے لیے انشورنس کروانے کا حکم


سوال

 میں سوزوکی کمپنی سے قسطوں پر بائیک لینا چاہ رہا ہوں ، ان کی شرط یہ ہے کہ بائیک کی انشورنس کرانا لازمی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ان سے کہا کہ میں انشورنس نہیں کرواسکتا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ ہم بغیر انشورنس کے بائیک نہیں دے سکتے ہیں، یہ کمپنی کی پالیسی ہے ، اب اگر میں ان کی شرط مان لوں اور انشورنس کرواکر ان سے بائیک لے لوں، لیکن بعد میں  انشورنس کلیم نہ کروں تو میرے لیے یہ بائیک لینا جائز ہے یانہیں؟

جواب

مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر  "سود"  کے ساتھ " جوا"  بھی پایا جاتا ہے، اور  اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو  حلال نہیں کرسکتی؛ اس لیے سوزوکی کمپنی  سے قسطوں پر بائیک لینے  کے لیے اگر انشورنس کروانا شرط ہے تو آپ کے  لیے متبادل صورت کے ہوتے ہوئے خاص سوزوکی کمپنی سے ہی بائیک کے حصول کی خاطر انشورنس کروانا جائز نہیں ہوگا،  چاہے  بعد میں کلیم کریں یا نہ کریں؛ کیوں کہ بعد میں کلیم نہ کرنے کی صورت میں اگرچہ آپ سود اور جوئے کے پیسے وصول کرنے سے تو محفوظ رہیں گے، لیکن فی الحال سود اور جوئے پر مشتمل معاملے  پر رضامندی اور اسے قبول کرنے کا گناہ ملے گا، اس  لیے اس گناہ سے بچنے کے لیے آپ پر لازم ہے کہ آپ کسی دوسری کمپنی یا دوسری جگہ سے بائیک خرید لیں،  لیکن انشورنس کے ناجائز معاملہ سے خود کو محفوظ رکھیں۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]

صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

(4/483، کتاب البیوع  والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)

فتاوی شامی میں ہے:

"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ".

(6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں