بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورہ کی رسم کا حکم


سوال

  ایک گھرانہ ہے،  جس میں ایک لڑکی منکوحہ تھی اور اپنے نکاح پر راضی نہ تھی ،جس کے باعث وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی، اب اس دوسرے لڑکے کے گھرانے والے مذکورہ لڑکی کے گھرانے والوں سے صلح کرنا چاہتے ہیں، اس صلح کے نتیجے میں لڑکی کے گھرانے والے یہ شرط لگانا چاہتے ہیں کہ ہماری لڑکی اور تمہارا لڑکا شادی کے بعد اس گاؤں میں نہیں رہیں گے، دوسری شرط یہ ہوگی کہ لڑکے کے گھرانے والے اپنے گھر کی دو لڑکیاں مع جائیداد لڑکی والوں کے گھرانےکے حوالے کریں گے، آیا یہ شرائط لگانا شرعا درست ہے یا نہیں ؟

اگر یہ صلح شرائط پر ہوجاتی ہے تو لڑکی کے گھرانے والے اس کے گزشتہ شوہر سے طلاق دلوا ئیں گے اور دوسرے شوہر سے شادی کروائیں گے جس کے بعد لڑکا لڑکی گاؤں میں نہیں رہیں گے اور لڑکے کے گھرانے والے دولڑکیاں مع جائیداد حوالے کریں گے اس صلح کی صورت کو پشتو کی اصطلاح میں سورہ کہتے ہیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی کو بھگانا ناجائز اور حرام تھا اس دوران لڑکا لڑکی نے جو وقت ایک ساتھ گزارا ان پر تو بہ استغار لازم ہے ۔باقی جہاں تک صلح کی بات  ہے تو  آزاد عورت شرعا مال نہیں ہے اور بدل صلح کا مال ہونا ضروری ہے ،لہذ ا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شرائط کے ساتھ صلح کرنا  اور پہلے شوہر سے طلاق دلواناشرعاجائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه.

فأنواع: (منها) أن يكون مالا فلا يصح الصلح على الخمر والميتة والدم وصيد الإحرام والحرم وكل ما ليس بمال؛ لأن في الصلح معنى المعاوضة فما لا يصلح عوضا في البياعات لا يصلح بدل الصلح، وكذا إذا صالح على عبد، فإذا هو حر؛ لا يصح الصلح؛ لأنه تبين أن الصلح لم يصادف محله."

(کتاب الصلح , فصل فی الشرائط التی ترجع الی المصالح علیه جلد 6 ص : 42 ط : دارالکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والخلاف فيما إذا لم يعرف سوء اختيار الأب مجانة أو فسقا أما إذا عرف ذلك منه فالنكاح باطل إجماعا."

(کتاب النکاح , الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح جلد 1 ص : 294 ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله مجانة وفسقا).....وفي شرح المجمع حتى لو عرف من الأب سوءالاختيار لسفهه أو لطمعه لا يجوز عقده إجماعا."

(کتاب النکاح , باب الولی جلد 3 ص : 66 ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وبه ظهر أن الفاسق المتهتك وهو بمعنى سيئ الاختيار لا تسقط ولايته مطلقا لأنه لو زوج من كفء بمهر المثل صح."

(کتاب النکاح , باب الولی جلد 3 ص : 54 ط : دارالفکر)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"وشرعا هو عقد يرفع النزاع بالتراضي أي بتراضي الطرفين المتخاصمين ويزيل الخصومة ويقطعها بالتراضي؛ وركنه عبارة عن الإيجاب والقبول، وينعقد، ويصح بحصول الإيجاب من طرف والقبول من الطرف الآخر."

(الکتاب الثانی عشر فی حق الصلح و الابراء جلد 4 ص: 7 ط: دارالجیل)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407102110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں