بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سترہ کے لمبائی اور موٹائی کی مقدار، امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہوتاہے یا نہیں؟


سوال

نماز  پڑھتے  ہوئے  اگر  نمازی  اپنے آگے اینٹ یا لکڑی  رکھ  دے تو  نماز  پڑھنے والے  کے  آگے  سے کوئی بھی بندہ گزرے  توگزرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا ۔

نمازی اپنے آگے جو چیز رکھے اس کی لمبائی کیا ہو؟ اور اس کی کم از کم موٹائی کتنی ہونی چاہیے ؟

اگر امام صاحب باجماعت نماز پڑھا رہے ہوں اور اپنے آگے کوئی چیز رکھیں تو کیا وہ چیز تمام نمازیوں کے سامنے شمار ہوگی؟ اور اس عمل کو کیا نام دیتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  نمازی سترہ کے طورپر جو چیز بھی اپنے سامنے رکھے، وہ  لمبائی میں کم از کم   ایک ذراع/ ایک ہاتھ  (یعنی ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک، دو بالشت) کے برابر اور موٹائی  میں کم سے کم ہاتھ کی ایک انگلی کے برابر ہونی چاہیے۔

اگر جماعت سے نماز ادا کی جا رہی ہو اور امام کے آگے سترہ ہو تو وہ سترہ مقتدیوں کا بھی سترہ شمار ہو گا؛  لہذا  اس صورت میں اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں  کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے ، اس سے وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو الأحوص، عن سماك، عن موسى بن طلحة، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا وضع أحدكم بين يديه مثل مؤخرة الرحل فليصل، ولايبال من مر وراء ذلك»."

(كتاب الصلاة، باب سترة المصلي، ج: 1، ص: 401، رقم: 499، ط: بشري)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويغرز) ندبا بدائع (الإمام) وكذا المنفرد (في الصحراء) ونحوها (سترة بقدر ذراع) طولا (وغلظ أصبع) لتبدو للناظر (بقربه) دون ثلاثة أذرع (على) حذاء (أحد حاجبيه) ما بين عينيه والأيمن أفضل... (وكفت سترة الإمام) للكل.

وفي الرد: (قوله وكذا المنفرد) أما المقتدي فسترة الإمام تكفيه كما يأتي. (قوله بقدر ذراع) بيان لأقلها ط. والظاهر أن المراد به ذراع اليد كما صرح به الشافعية، وهو شبران (قوله وغلظ أصبع) كذا في الهداية. (قوله للكل) أي للمقتدين به كلهم؛ وعليه فلو مر مار في قبلة الصف في المسجد الصغير لم يكره إذا كان للإمام سترة."

(رد المحتار، ‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 636۔638، ط: سعید)

العنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"و الخامس في مقدارها و ذلك أن يكون ذراعًا فصاعدًا (لقوله صلى الله عليه وسلم: «أيعجز أحدكم إذا صلى في الصحراء أن يكون أمامه مثل مؤخرة الرحل»... وسنذكر أنه صلى الله عليه وسلم صلى إلى عنزة وهي مقدار ذراع. و قوله: (ينبغي) بيان غلظه روي عن ابن مسعود أنه قال: يجزئ من السترة السهم. والثامن أن سترة الإمام سترة للقوم «؛ لأنه صلى الله عليه وسلم صلى ببطحاء مكة إلى عنزة ولم يكن للقوم سترة» أي عصا ذات زج."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 331،330، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں