بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھریلوں پریشانیوں سے چھٹکارہ پانے کا وظیفہ


سوال

 میں شادی شدہ ہوں ایک سال ہوگیا ہے ،سسرال میں حالات خراب ہیں، ساس کا رویہ  درست نہیں، بہت کوشش کی ہے لیکن بے سود ،شوہر مجھے والدین کے گھر آنے نہیں دیتے ۔والدہ اس بات پہ ناراض رہتی ہیں آجاؤں تو گالم گلوچ کرتی  ہیں  ،زندگی اجیرن ہوگئی  ہے ،امید سے ہوں مگر سکون نہیں  ہے ۔والدہ ہر وقت پریشان رہتی ہیں اور مجھے بھی پریشان  کرتی ہیں، حالات میرے موافق نہیں  ہیں ،سسرال رہوں تو والدین کی بے رخی،    ملنے نہیں آتی ۔گھر آؤں تو سسرال والے پریشان کرتے ہیں کیوں ہو ادھر،  اور آنا بھی ہو  والدین کی طرف تو ایک دن سے زیادہ نہیں۔پھر بھی میں مشکل میں ہوں۔سب غلط سمجھتے ہیں ۔غلط باتیں سن سن کے ذہنی مریض بنتی جارہی ہوں،  کسی کو فکر نہیں ہے ۔ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی کوئی  مجھ سے خوش نہیں  ۔والدہ یہی کہتی ہیں   دفع ہو جاؤ،  جس کا گند اٹھائے پھرتی  ہو۔ یہ بات بہت تکلیف دہ ہے میرے لیے۔ برداشت نہیں  ہوتا تو جواب دیتی ہوں ان کو۔ سب کے دلوں میں میرے لیے بدگمانی پیدا کر رہی ہیں،  گھر میں سب کو بتا بتا کے زندگی اجیرن کردی ہے،  کل تک جو اچھا سلوک کرتے تھے  وہ سب بری نگاہ سے دیکھتے  ہیں مجھے۔بھابیوں کو سنا سنا کے بغیر وجہ کے الزام لگاتی ہیں، میں کہاں جاؤں؟  شوہر کو والدہ کا رویہ بتا نہیں سکتی ۔ بہن بھائی   سننا نہیں چاہتے۔بہت پریشان ہوں میں ، ایک پل بھی سکون نہیں  لینے دیتیں۔ میں بہت کوشش کے باوجود بھی ان کے رویہ میں فرق نہیں  لاسکی۔گھر میں سب گالم گلوچ  کرنے لگے ہیں، کوئی  پیار سے بات نہیں کرتا۔ چھوٹے بڑے سب پتہ نہیں  کس راہ پہ  چل پڑے ہیں ۔مہربانی ہوگی کوئی پڑھنے کے لیے بتائیں ۔میری زندگی سکون میں آجائے۔

جواب

واضح رہےکہ ازدواجی  رشتہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے،میاں بیوی دونوں کو اس کی قدر کرنی چاہیے، ازدواجی  تعلقات خوشگوار  رہیں اس کے  لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا  کریں ،صبر وتحمل سے کا م لیں اور ایک دوسرے کی لغزشوں پر درگزر کا معاملہ کریں ۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ سائلہ اپنے شوہر کی مکمل اطاعت کرتی ہے اور سسرال والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی ہے اس کے باوجود ان کا رویہ سائلہ کے ساتھ اچھا نہیں ہے تو یہ ان کی طرف سے زیادتی ہے،جیسے سائلہ پر اپنے شوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح سائلہ کےشوہر کے ذمہ بھی سائلہ کے حقوق  کی ادائیگی لازم ہے اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ  بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے  ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو  اپنی حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں،اس سلسلے میں  جانبین   کو  حقوق کے مطالبے   کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہر  ہ کرناچاہیے، سائلہ کو چاہیے  کہ  ساس کی عزت کرے،اگر سائلہ  کو  ساس یا دیگر رشتداسے کوئی سخت یا ناروا بات  ہوجائے تو  اس پر صبر کرے اوراللہ سے اجر کی امید رکھے،والدین کے بہت سے حقوق ہیں سائلہ اپنے والدین کےساتھ بھی حسن سلوک کامعاملہ رکھے،نیزسائلہ حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنَعْمَ الْوَكِیْلُکاورد کرتی رہے ،نیز  سورۂ نوح ،سورۂ یٰس پڑھ کرایک ہزار  (1000)مرتبہ ’’الباقي ‘‘پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے،ان شاء اللہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔( ماخوذ از اعمالی قرآنی )

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا. ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه."

(باب البر والصلة،الفصل الثالث3/ 1382،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت. رواه أبو نعيم في الحلية".

( باب عشرۃ النساء،2/ 239، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"

(مظاہر حق، 3/ 366، ط: دارالاشاعت)

حضرت  مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

"جب  تک  ساس خسر  زندہ  رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی۔"

(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب:31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں