بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسرال والوں کا بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرنا


سوال

میری اہلیہ ایک دینی مدرسے میں تقریبا نو سال سے حفظ کلاس پڑھارہی ہے ایک سال سے مدرسے میں کچھ خامیاں نظر آنیکی کی وجہ سے میں نے مدرسہ جانے سے منع کردیا تو کہنے لگی میں نے بہت محنت کی ہے بچوں پر،  مجھے وفاق کے امتحان تک پڑھانے کی اجازت دے دیں اور میں نے اجازت دیدی۔ جس دن وفاق کا امتحان ہونا تھا اس سے ایک دن پہلے مجھے آ کر کہنے لگی کہ میں نے مدرسہ چھوڑ دیا ہے کل سے مدرسہ نہیں جاؤں گی۔اسی دن شام کومیری اہلیہ کی والدہ بہنوئی بھائی آکر میری اہلیہ کو یہ کہہ کر لے گئے کہ اسکی طبیعت خراب ہے دو تین دنوں کیلئے لے کے جا رہے ہیں اور لے گئےمیری اجازت کے بغیر۔ ہماری شادی کو تقریبا ساڑھے دس سال ہوگئے ہیں ہماری زندگی میں کوئی بھی مسئلہ مسائل نہیں تھے، ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ میرے سسرال والے طلاق مانگ رہے ہیں تقریبا چار مہینے سے وہ گھر میں بیٹھی ہوئی ہے۔  مجھے میری اہلیہ سے ملنے بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میں کیا طلاق دے دو ں۔میں تو زندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن سسرال والے مان نہیں رہے طلاق مانگ رہے ہیں اگر میں طلاق نہ دو تو یہ لوگ کورٹ جا رہے ہیں خلع لینے کے لیے۔ کسی وجہ کےبغیر یہ لوگ خلع لیں گے تو یہ درست ہے کیا شرعی لحاظ سے جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے سسرال والے اگر واقعۃ کسی معقول وجہ کے  بغیر طلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں تو شرعا ان کا یہ مطالبہ درست نہیں ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق کو قرار دیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشبو نہ سونگھنے کی  اس عورت کو وعید سنائی ہے جو بلا وجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔  لہذا سائل کے سسرال والوں کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کا گھر بسانے کی کوشش کریں، نہ کہ اجاڑنے کی اور اگر کچھ چھوٹی موٹی باتیں سائل اور اس کی بیوی کے درمیان بالفرض ہیں بھی تو سائل کے سسرال والے شوہر کے ساتھ افہام او تفہیم کے ذریعہ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ نیز اگر سسرال والے سائل کی بیوی کو سائل کے پاس نہیں آنے دیتے اور علیحدگی پر اصرار کرتے ہیں تو پھر سائل کےلئے جائز ہوگا کہ وہ  طلاق دے دے کیونکہ  اس رشتہ کو قائم رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس مکروہ چیز کے ارتکاب کا بوجھ سائل کے سسرال والوں پر ہوگا اور وہ اس ناحق مطالبہ پر عند اللہ ماخوذ ہوں گے۔ نیز کورٹ کے فیصلہ کے متعلق فیصلہ کی دستاویز ات دیکھنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے، فیصلہ دیکھے بغیر کورٹ کے فیصلہ کا شرعی حکم نہیں بتایا جاسکتا ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن ابن عمر أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «أبغض الحلال إلى الله الطلاق» . رواه أبو داود"

(کتاب النکاح باب الطلاق و الخلع ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۱۳۷،دار الفکر)

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة» . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي."

«مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح» (5/ 2136)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100978

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں