بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسرال والوں سے ناراضگی کے باعث بیوی کے والدین کے گھر جانے پر تین طلاقیں معلّق کرنا


سوال

 میرا اپنے سسرال والوں سے کسی ناراضگی کی وجہ سے جھگڑا ہوا ،  اور میں نہایت ہی غصے میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھا ،  اب طلاق کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ :”اگر توآج کے بعد اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی  تو میری طرف سے تمھیں تین طلاقیں ہیں“،  عرصہ گزرنے کے بعد ہمارے قبیلے کے بڑے معتبر نے صلح کردیا،  اب مسئلہ طلاق کا تھا جس پر صلح نہیں  ہورہی  تھی ،  ہمارے بڑے معتبر نے کسی مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھا تو اس نے حل کچھ اس طرح بتایا کہ طلاق ناراضگی کی وجہ سے ہوئی ہے،  اگر فریقین آپس میں شیرو شکر ہورہے ہیں تو طلاقیں ختم ہو جاتی ہیں،  لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر جاسکتی ہے خاندان کے صلح ہونے کے بعد  اور لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر چلی بھی گئی لیکن شوہر کا دل اس پر مطمئن نہیں ہو پارہا، لہذا آپ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورت ِ  مسئولہ  میں جب سائل  نے اپنی بیوی کو  یہ کہا کہ : ”اگر توآج کے بعد اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی  تو میری طرف سے تمھیں تین طلاقیں ہیں“   تو اس جملہ سے   سائل  کی بیوی پر تین طلاقیں  ، اس کے والدین کے گھر جانے پر  معلّق ہوگئی تھیں،  اس کے بعد جب بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی تو  شرط کے پائے جانے  کی وجہ سے اس پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،  نکاح ختم ہوگیا ہے، بیوی، شوہر پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،   سائل کے مذکورہ شرط  پر  طلاق کو  معلّق  کر دینے کے بعد صرف دونوں خاندانوں میں صلح ہوجانے سے یہ  معلّق طلاق ختم نہیں ہوئی۔ لہذا   اب سائل   کے لیے رجوع کرنا یا دوبارہ  نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ مطلقہ  اپنی  عدت (مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اور حمل ہونے کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر    دوسری جگہ شرعاً   نکاح کرسکتی ہے۔

 ہاں اگر مطلّقہ     عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرلے، پھر وہ  دوسرا شخص اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد از خود  طلاق دے دے یا  عورت  خود طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے  تو پھر اس کی  عدت گزار کر پہلے شوہر (سائل)   سےدوبارہ  نکاح کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق." 

  ( 1/420، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة إن و إذا و غیرها، باب الأیمان في الطلاق، رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث: فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(3 /187، کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں