بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کی جائیداد اور سامان میں شوہر کے انتقال کے بعد بہو کا دعوی کرنا


سوال

میرے بیٹے کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوگیا ہے،میرا بیٹا،بہو اوراس کے دو بچے میرے ساتھ میرے گھر میں ہی رہتے تھے،اور یہ گھرمیرا اپنا ذاتی ہے جو میری کمائی کا ہے اور میرے ہی نام پر ہے،اور گھر کا سامان بھی میری اپنی کمائی کا ہے،میری بیوی بھی حیات ہے،میرے بیٹے کے انتقال کے بعد سے میری بہو اور اس کے بھائیوں نے بڑھاپے میں میرا جینا حرام کیا ہواہے اورکورٹ میں میرے اور میری بیوی کے نام سے مکان اورسامان کےبارے میں  کیس کر دیا ہے،حالاں کہ اس کا مکان میں جہیز کے علاوہ اس کا کچھ بھی نہیں ہے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میرے بیٹے کامیری جائیداد اور مکان کے سامان میں حصہ بنتاہے؟کیا میری بہو اس بارے میں قانونی اور شرعی طور پر کیس کر سکتی ہے؟اس سلسلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً  سائل کا بیان صحیح اور درست ہے کہ سائل جس گھر میں رہائش پذیر ہے ،وہ اس کا ذاتی ہے اور اسی کی کمائی کا ہے،بہو کے جہیز کے علاوہ گھر کا سامان بھی سائل کا ذاتی ہے تو   بہو کے لیے مکان اور گھر کے سامان کے بارے میں کورٹ میں کیس کرنا شرعا درست نہیں ہے،کیوں کہ سائل کی زندگی میں اس کی جائیداد اس کی ہی ذاتی ملکیت ہے،اس میں کسی کا کوئی حق نہیں اور سائل کی وفات کے بعد اس کی جائیداد اس وقت زندہ ورثاء میں تقسیم ہوگی،سائل کے مذکورہ بیٹے یا اس کی بیوہ اور اولاد کا بطورِ وراثت  حصہ نہ ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے :

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

"ترجمه:الله كے رسول صلي الله عليه وسلم نے ارچاد فرمايا:خبردار ہوجاؤ! ظلم نہ کرو،خبردار ہوجاؤ! کسی آدمی کا مال  اسی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے"

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعارية 261/1ط: رحمانية)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :

"قال ابن نمير: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه يوم القيامة إلى ‌سبع ‌أرضين"، قال ابن نمير: "من ‌سبع ‌أرضين."

"ترجمه:الله كے رسول صلي  الله عليه وسلم كا ارشاد هے:کسی نے ایک بالش بھر بھی زمین ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا"۔

(مسند أحمد،مسند العشرۃ المبشرۃ، مسند سعید بن زید 2/ 291 ،ط:دار الحدیث القاھرۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."

(کتاب الفرائض 6/ 758 ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں