بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کو کہنا کہ (اگر لے کر جانا ہےتوہمیشہ کے لیے لےجا، سامانِ جہیز بھی ساتھ لے جا) کیا نکاح میں کوئی فرق پڑے گا؟


سوال

زید کےسسرنے کہامیری بیٹی کو بھیج دو، زید نے انکار کیا ، لیکن سسر نہیں مانا اور کہا لے کرہی جاؤں گا، زیدنے کہا اگر لے کر جانا ہےتوہمیشہ کے لیے لےجا،  سامانِ جہیز بھی ساتھ لے جا ، کیا نکاح میں کوئی فرق پڑےگا؟

جواب

زید کا اپنے سسر کو یوں کہنا کہ " اگر لے کر جانا ہے تو ہمیشہ کے لیے لے جا، سامانِ جہیر بھی ساتھ لے جا"،اگر  طلاق کی نیت کیے بغیر محض سسر  کو ڈرانے کے لیے مذکورہ جملہ" اگر  لے کر جانا ہے تو ہمیشہ کے لیے لے جا، سامانِ جہیز بھی ساتھ لے جا" بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوئی ،اور اگرشوہر کی   طلاق کی نیت  تھی تو پھر اس ایک طلاق بائن واقع ہوگی، اور دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا،  عدت  گزرنے کے بعدزید  کی بیوی  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ، البتہ  اگر دونوں فریقین(سائل اور اس کی سابقہ بیوی)  دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے، اور اس کے بعدسائل  کو آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: اخرجي ‌اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك قيد باقتصاره على ‌اذهبي لأنه لو قال: ‌اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: ‌اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى كذا في الخلاصة".

(کتاب الطلاق، باب الکنایات فی الطلاق، ج:3، ص:326، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.(قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره".

(باب الكنايات، ج:3، ص297، ط:سعيد)

فیہ ایضاً:

"والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية". 

(‌‌‌‌كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:301، ط:سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ایک سوال کے جوا ب میں مذکورہے:

"یہ کہنا کہ چلی جا،ان کنایات سے ہے جن میں ہر حال میں نیت طلاق کی شرط ہے۔"

(کتاب الفرائض ،ج:4،ص:364،ط:مکتبہ دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں