بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا بہو کو چمٹانے سے حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

میری بیٹی کے سسر میری بیٹی کو اپنے سے چمٹا لیتے تھے ،جب وہ سو رہی ہوتی تھی جب بھی وہ کمرے میں آ جاتے تھے اور پورے جسم پر ہاتھ پھیرتے تھے اور جب کچن میں ہوتی تھی جب بھی پیچھے سے آکر لگ جاتے تھے ۔میری بیٹی نے اپنے شوہر کو بھی یہ بات بتا دی تھی کہ میری عزت یہاں  محفوظ نہیں ہے ،لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں بولا۔ بلکہ میری بیٹی کو کہتے تھے کہ زیادہ شک کی  نگاہ سے نہیں دیکھا کرو۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میری بیٹی اپنے شوہر پر حرام ہو گئی ہے یا نہیں؟ ان کا نکاح باقی ہے یا ختم ہو گیا؟ وہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر   کوئی  شخص اپنی بہو  کو شہوت سے   ایسے چھوئے  کہ اس کے اور بہو کے جسم کے درمیان کوئی حائل یعنی کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو یا حائل تو ہو، لیکن وہ کپڑا اتنا باریک ہو کہ  اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو اور   اس شخص    کو شہوت بھی محسوس ہو یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اور  پھر  بہو (بیٹے کی بیوی ) اپنے شوہر پر ہمیشہ کےلئے  حرام ہوجا تی ہے۔

لہذا صورت  مسئولہ میں  اگر سسر نے بہو کو (مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق) بلاحائل  شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا ہے اور  شوہر بھی عورت کی اس بات کی تصدیق کرتا ہے تو یہ عورت  اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوچکی ہے، شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو زبان سے طلاق دے کر علیحدہ کردے، لیکن اگر سسر نے بہو  کو کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگایا ہے اور جسم کی گرمی اسے محسوس نہیں ہوئی یا شوہر اس بات کی تصدیق نہیں کرتا اور سسر بھی انکاری ہوتو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، تاہم سسر کا اپنی بہو کے ساتھ مذکورہ نوعیت کی حرکتیں سخت گناہ اور بڑی بےغیرتی کی بات ہے، شوہر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی بیوی کی شکایت کو نظرانداز کرنے کے بجائے سنجیدگی سے لے اور اپنے والد کو ایسی حرکتوں کا موقع نہ دے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ثم المسّ إنما یوجب حرمة المصاهرة إذا لم یکن بینهما ثوبٌ ، أما إذا کان بینهما ثوب فإن کان صفیقاً لا یجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن کان رقیقاً بحیث تصل حرارة الممسوس إلی یده تثبت، کذا في الذخیرة".

(الفتاوى الهندية، ص۳۷۵ ، ج۱ ، (الفصل الخامس في الكنايات)، الباب الثاني في إيقاع الطلاق،(كتاب الطلاق)،ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن ( مطلقًا، والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما، وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته، به يفتى".

(فصل في المحرمات، كتاب النكاح، (3/33)، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج، وإن ‌صدقه ‌الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج."

(کتاب النکاح، الفصل الثالث، القسم الثانی المحرمات باالصهرية، ج:1، ص:276، ط:رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ‌ظنه ‌صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك اهـ."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات فی النکاح، ج:3، ص:107، ط:دار الکتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں