بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا بہو کے ساتھ زنا کرنا یا شہوت سے چھونا


سوال

 مسئلہ یہ ہے کہ اگرسسر اپنے بیٹے کی بیوی کے ساتھ ہمبستری کر لے  یا ہمبستری کی نیت سے چھو لے  تو بیٹے کا نکاح فاسد ہو جائے گا کس صورت میں حرام ہوجائے گی یا نہیں اور جو سسر ہے اس کی بیوی اس پر حلال ہے یا حرام ؟ 

جواب

اگر سسر  اپنی بہو سے زنا کرلے جبراً  ہو یا رضامندی سے بہر صورت بیوی اپنی شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی بشرطیکہ شوہر اس کی تصدیق بھی کرے  اور اگر زنا نہ کیا ہو بلکہ  اپنی بہو  کو  شہوت کے ساتھ اس طرح چھوئے  کہ اس کے اور بہو کے جسم کے درمیان کوئی حائل نہ ہو یا حائل تو ہو، لیکن اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو  یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہواور شوہر اس کی تصدیق بھی کرے تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اور  پھر  بہو (بیٹے کی بیوی ) اپنے شوہر پر ہمیشہ کے  لیے حرام ہوجا تی ہے۔

لہذا اگر سسر نے بہو کو بلاحائل  شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا ہے اور  شوہر عورت کی اس بات کی تصدیق کرتا ہے تو وہ عورت  اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوچکی ہے، شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو زبان سے طلاق دے کر یا زبان سے نکاح سے نکالنے کے الفاظ کہہ کر علیحدہ کردے۔

دوبارہ  نکاح کرنے  یا  کسی دوسرے سے نکاح کرکے حقوق کی ادائیگی اور طلاق  لے کر عدت گزارنے کے بعد نکاح کرنے سے بھی عورت اپنے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ اور  بہر صورت سسر اور اس کی بیوی (ساس)کا آپس میں نکاح برقرار رہے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و تثبت بالوطء حلالًا كان أو عن شبهة أو زنًا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية،جلد۱، ص:۲۷۴،  ط:دارالفكر بيروت)

البحرالرائق میں ہے:

"و المختار القبول كما في التجنيس وفي فتح القدير وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ظنه صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك."

(8/44، دار الكتب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله : وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجودًا قبلهما قوله: (به يفتى) وقيل حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهيا أو يزداد إن كان مشتهيا ولا يشترط تحرك الآلة وصححه في المحيط والتحفة وفي غاية البيان وعليه الاعتماد."

(9/269، سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقةً تصل الحرارة معها كما قدمناه، وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف ، فإن ادعتها وأنكرها فهو مصدق إلا أن يقوم إليها منتشرا فيعانقها ؛ لأنه دليل الشهوة كما في الخانية وزاد في الخلاصة في عدم تصديقه أن يأخذ ثديها أو يركب معها."

(8/43،دار الكتب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402101930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں