بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا اپنی بہو سے نازیبا باتیں کرنا اور کندھے پر ہاتھ لگانا


سوال

میں ، میرا شوہر اور میرا سُسر ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں اور میری ساس کا انتقال ہو چکا ہے ، میرے سسر نے مجھے غلط کام کرنے کو کہااور میرے ساتھ نازیبا بات چیت کی کہ  میں بہت پریشان ہوں اورمجھے تمھارے ساتھ کی ضرورت ہے ، کبھی وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ مجھے تمہیں دیکھ کر شیطان آتا ہے اور میں کنٹرول نہیں کرپاتا، اوراس طرح کی مختلف باتیں کہہ کر  مجھے اپنے ساتھ غلط کام کرنے پربہلاتے پھسلاتے ہیں، جب میں نے اپنے سُسر کو منع کردیا تو وہ مجھ سے کہنے لگے کہ اگر تم نے میری باتیں کسی کو بتائیں تو تمھاری ہی بدنامی ہوگی ، میں تو اپنا دفاع کر لوں گا، ایک  مرتبہ  جب میں ان کو چائے دینے گئی تھی تو انہوں نے میرے کندھے پربھی ہاتھ رکھا اور ایک مرتبہ جب میں نہارہی تھی تو وہ جھانک کر مجھے دیکھنے کی کوشش کررہے تھے ۔

میرے شوہر کے علم میں یہ تمام باتیں تھی اور میں روز خود ان کو بتاتی تھی، جب میرے شوہر نے اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ یہ جھوٹ بول رہی ہے، جب کہ میں نے اپنے شوہر کو سسر کی ساری باتیں ریکارڈ کرکے بھی سنائی تھی ۔

جب میں نے یہ تمام باتیں اپنے والد صاحب کوبتائیں، تو میرے والد نے کہا کہ معاملہ صاف کرکے ہی کوئی بات چیت کریں گے، جس پرمیرے شوہر غصہ ہوگئے کہ اگر تماشہ ہو ا تو میں تمہارا فیصلہ کردوں گا ،معاملہ کو ختم کرتے ہیں ، میں تمہیں الگ گھر میں رکھوں گا اور میرے گھر والے تمھارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گے ۔

پھر میرے سُسر نے بعد میں اعتراف کر لیا اور کہا کہ میں علیحدگی میں معافی مانگ لوں گا ، لیکن جب یہ مسئلہ اور بات چیت لوگوں کے سامنے ہوئی تو میرے سسر بھی منکر ہوگئے اور میرے شوہر نے بھی انکار کردیا کہ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں    ۔

خاندان کے کچھ بڑے  حضرات بیٹھے، ان کا کہناہے کہ آپ لوگ مصالحت کرلیں۔

کن شرائط کے ساتھ مصالحت کرنا میرا درست ہے ؟

اگر میں کچھ شرائط رکھ کر واپس جانے پررضامند ہوجاؤں تو کیاشریعت کی طرف سے میرے پاس شرائط رکھنے کا اختیار ہے یا نہیں؟

اور مجھے شوہر کے پاس دوبارہ جانا چاہیے یا نہیں  اور اس بات کی بھی نشاندھی فرمادیں کہ اگر میرے سسر نے مجھے غلط ارادے سے ہاتھ لگایا تو اس سے حرمت ِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟

جواب

اگر   کوئی  شخص اپنی بہو  کو  ایسے چھوئے  کہ اس کے اور بہو کے جسم کے درمیان کوئی حائل نہ ہو یا حائل تو ہو، لیکن اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو اور   اس شخص    کو شہوت بھی محسوس ہو یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اور  پھر  بہو (بیٹے کی بیوی ) اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجا تی ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں  اگر واقعۃً سسر نے اپنی بہو کو (چائے دیتے  ہوئے) کندھے پر ہاتھ لگایا تو اس صورت میں اگربلاحائل  شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا ہو یا ایسا باریک کپڑا درمیان میں حائل تھا کہ جس سے بدن کی حرارت محسوس کی جا سکتی تھی تو اس صورت میں بہو یعنی بیٹے کی بیوی اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی ، اس صورت میں دونوں پر لازم ہوگا کہ فی الفور علیحدگی اختیار کرے ، علیحدگی کا طریقہ  یہ  ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق  یا اس جیسے لفظ کہہ کر  اپنے سے علیحدہ کر لے، اس کے بعد بیوی عدت گزارکر دوسرے جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ۔

اوراگر درج بالاشرائط نہیں پائی گئیں تو  حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی،سائلہ اور اس کے شوہر کارشتہ برقرار ہے،سائلہ کواپنے شوہرکے پاس جاناچاہئے ،البتہ سائلہ چاہے تومصالحت کے لئےحدودشرع کے اندر رہتے ہوئے شرائط رکھ سکتی ہے، مثلاً:  

۱۔شوہر بیوی کے لیے ایسے گھریا کمرے کا بندوبست کرے کہ جس میں شوہر کے والد (سسر) کا کچھ عمل دخل نہ ہو۔

۲۔شوہر بیوی پر زور زبردستی نہیں کرے گاکہ وہ اپنے والد یعنی سسرسے بات چیت کرے یا صلح صفائی کرے ۔

۳۔سسر اگر اپنے اس فعل پر نادم اور شرمندہ ہو تو سسر سے میل جول اور صلح صفائی کا حق لڑکی کو ہوگا، یعنی صلح لڑکی کی اجازت پر موقوف ہوگی۔وغیرہ

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله : وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجودًا قبلهما قوله: (به يفتى) وقيل حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهيا أو يزداد إن كان مشتهيا ولا يشترط تحرك الآلة وصححه في المحيط والتحفة وفي غاية البيان وعليه الاعتماد."

(كتاب النكاح ، فصل في المحرمات، ج۔3،ص۔33،ط۔سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقةً تصل الحرارة معها كما قدمناه، وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف ، فإن ادعتها وأنكرها فهو مصدق إلا أن يقوم إليها منتشرا فيعانقها ؛ لأنه دليل الشهوة كما في الخانية وزاد في الخلاصة في عدم تصديقه أن يأخذ ثديها أو يركب معها."

(كتاب النكاح ، فصل في المحرمات في النكاح، ج۔3،ص ۔107،ط۔دارالكتاب الاسلامي)

درمختار میں ہے:

’’وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد ‌المتاركة وانقضاء العدة۔‘‘

(فصل فی المحرمات،ج۔۳،ص۔۳۷،ط۔سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك".

 (الباب السابع عشر في النفقات ،ج۔۱،ص۔۵۵۶، ط: ماجدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں