بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا اپنی بہوسے زناکرنے کے بعد حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

جامعہ کا ایک فتوی  (144404100197) کے سلسلے میں شریعت کی کیا حکمت ہے کہ عورت جو کہ پاک دامن ہے اور بیٹا (شوہر) کا کوئی قصور نہیں ہے جو ایک دوسرے کےلیے ہمیشہ کےلیے حرام ہوگئے، اور سسر جوکہ اسلامی قانون نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی سزا کا مستحق نہیں اور نہ ہی ان کے نکا ح پر کوئی اثر پڑا ، اسی طرح کہ مسائل گھر کی خواتین کےلیے بہت اضطراب کا سبب ہیں ، ہم سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس طرح کوئی بھی سسر اپنی ذاتی یا شیطانی سوچ کی وجہ سے پورا گھر تباہ کر سکتاہے ، راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ  انسانوں کے درمیان  تعلقات اور محرم رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ،  ایک  نسب اور خون  کے رشتے اور دوسرے  سسرالی  رشتے اس سسرالی رشتے کو  ”مصاہرت“  کہتے ہیں ، جیسے: سسر، ساس، اور ان کے اصول یعنی  ان کا پدری اور مادری سلسلہ، اور بیوی کی بیٹی، شوہر کا بیٹا وغیرہ، ان رشتہ داروں سے حرمت کو”حرمتِ مصاہرت“  کہا جاتا ہے، گویا درحقیقت مصاہرت دوعلیحدہ علیحدہ خاندانوں کو ایک دوسرے کا جزو بنادیتا ہے اورایک خاندان کو دوسرے خاندان سے قریب کردیتاہے، نیز بتقضائے فطرت انسانی بھی یہ چیز سمجھ میں آسکتی ہے کہ جب ایک عورت نے کسی مرد سے جنسی قربت حاصل کی اوراس کے فکرو جسم کا ایک حصہ ایک شخص کے سامنے بے نقاب ہوگیا تو پھر یہ حصہ اسی شخص کے قریب ترین رشتوں کے سامنے بےحجاب ہونے سے محفوظ رہنا ضروری ہے ورنہ ایک ہی حمام میں باپ اور بیٹے یاماں اور بیٹی دونوں بے حجاب ہوں تو رشتوں کا احترام اور تقدس تار تار ہوجائےگا جبکہ اسلام نے رشتوں کے احترام کا حکم دیاہے، اگر لوگوں میں یہ دستور چل پڑے کہ ماں کواپنی بیٹی کے خاوند سے اور باپ کو اپنے بیٹے کی بیوی سے یا اپنی بیوی کی بیٹی سے رغبت ہو یعنی ان سے نکاح جائز ہو تو اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ اس تعلق کو توڑنے کی کوشش کی جائے گی اورجو آڑے آئےگا اس کو قتل کرنے کی کوشش کی جائےگی اور یوں زمین فسادات سے بھرجائےگی۔

لہٰذا اگر سسر اپنی شیطانی سوچ کی وجہ سے اپنی بہو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتاہے اورعورت اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی تو یہ حرام ہونا عورت یا اس کے شوہر پر بطور سزا کےنہیں ہے بلکہ یہ تو سسرکے اس فعل بد کا اثر اور لازمی نتیجہ ہے جو ہر صورت اپنا اثر دیکھائےگا ، جیسے اگر کوئی شخص کسی کو ناحق زہر دے کر قتل کردےتواگر چہ مقتول بے گناہ ہے اس کےباجود بھی وہ مرگیا یعنی ایسانہیں ہے کہ مقتول بے گناہ ہے تو اس پر زہر کا اثر نہ ہو اور وہ مرنے سے بچ جائے بلکہ اس پر قتل کے فعل کااثرہوگا البتہ ایسے کرنے والے قاتل کو سزا ملےگی، اسی طرح مذکورہ مسئلہ میں بھی سسر کے اس فعل میں اگرچہ بہو کا کوئی قصور نہ ہو  لیکن اس فعل بد کا اثر مرتب ہوگاالبتہ سسر کو آخرت میں اس فعل کی سزا دی جائےگی، نیز سسر کی یہ حرکت غیر اخلاقی ہے جس کی اسلام تو کیا دنیا کا کوئی مقدس مذہب اجازت  نہیں دیتاہے، ایسے آدمی کو معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے، اسی طرح شوہر پر اپنی بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اپنی بیوی کو تحفظ فراہم کرے جب شوہر کے والد نے اپنی بہو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کی غفلت ہے جس کی وجہ سے اس کی بیوی کو مکمل تحفظ نہیں ملا اور اس کا نتیجہ حرمت مصاہرت کی صورت میں ظاہر ہوا۔

نیز اگر سسر نے اپنے بیٹے کا گھر خراب کرنے کی وجہ سے اپنی بہوکو شہوت سے مس کیا  اور بیٹے نے بھی شہوت کے ساتھ مس کی تصدیق کی تو ایسی صورت میں بیٹے پر اپنی بیوی کےلیے مہر لازم ہوگا اور یہ مہر بیٹا اپنے باپ سے وصول کرےگا جس نے اپنے بیٹے کا گھر خراب کرنے کی وجہ سے ایسی حرکت کی ،اوراگرسسر نے اپنی بہو سے زنا کیا تو ایسی صورت میں اگر سسر نے زنا بالجبر کیا ہے تو سسر پر حدِ زنا جاری ہوگی اوراگر زنا دونوں کی رضامندی سے ہوا تو دونوں پر حدزنا جاری ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج، وإن ‌صدقه ‌الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج."

(کتاب النکاح، الفصل الثالث، القسم الثانی المحرمات باالصهرية، ج:1، ص:276، ط:رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ‌ظنه ‌صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك اهـ."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات فی النکاح، ج:3، ص:107، ط:دار الکتاب)

المحیط البرہانی  میں ہے:

"قبل الأب ‌امرأة ‌ابنه بشهوة وهي مكرهة، وأنكر الزوج أن يكون ذلك عن شهوة فالقول قول الزوج؛ لأنه ينكر بطلان ملكه، وإن صدقه الزوج أنه كان عن شهوة وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج، ويرجع الزوج بذلك على الذي فعل ذلك إن تعمد الفاعل الفساد؛ لأنه وجب الحد بالوطء، والمال مع الحد لا يجتمعان."

(كتاب النكاح،الفصل الثالث عشر في اسباب التحريم،ج:3،ص:67،ط:دارالكتب العلمية)

التجرید للقدوری میں ہے:

"لا يلزم إذا وطئ ‌امرأة ‌ابنه قبل دخول زوجها بها يقصد بذلك إفساد النكاح أنه يحد ويجب عليه ضمان نصف المهر."

(كتاب الغصب،مسئلة اكراه الرجل امراة على الزنا،ج:7،ص:3346،ط:دارالسلام)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال :زید نے بکر کی بیوی ہندہ سے زنا یا لوازمات زنا کیا ہندہ مقر ہے اور زید منکر ہے اور گواہ ہندہ کا کوئی نہیں ہے اس صورت میں کس کا قول معتبر ہے آیاہندہ مقر کا یا زید منکر کا؟

(۲) ہندہ زید کے لڑکے کے نکاح سے بدون لفظ طلاق نکاح سے باہر ہو سکتی ہے یا یہ فعل باعث طلاق ہوگیا؟  اور بدون حاصل کئے طلاق نکاح ثانی کر سکتی ہے یا نہیں ؟

الجواب:(۱)ہندہ مدعی حرمت ہے جس سے حق بکر کا زائل ہوتا ہے اس لئے صرف دعویٰ کافی نہیں اور ہندہ کا قول معتبر نہ ہوگا۔نظیرہ مافي الدرالمختار: وإن ادعت الشھوۃ في تقبیلہ أو تقبیلھا ابنہ و أنکر ھا الرجل فھو مصدق۔ الخ وفي رد المحتار:  أي ادعت الزوجۃ أنہ قبل أحد أصولھا أوفروعھا بشھوۃ أو أن أحد أصولھا أو فروعھا قبلہ بشھوۃ الخ قولہ فھو مصدق؛ لأنہ ینکر ثبوت الحرمۃ والقول للمنکر۔

البتہ اگر شوہر بھی ہندہ کی تصدیق کرے تو حکم حرمت کا کیا جائے گیا۔نظیرہ مافي الدر المختار عن الخلاصۃ: قیل لہ مافعلت بأم امرأتک فقال جامعتھا تثبت الحرمۃ ولا یصدق أنہ کذب ولوھا زلاً۔ 

(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج: 2، ص: 339، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں