بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زیادتی کرنے کا حکم


سوال

 سسر اور بہو گھر میں اکیلے تھے۔رات کو سسر اٹھ کر بہو کے کمرے میں گیا اور بہو کے ساتھ لیٹ گیا اور اپنے ساتھ چمٹا لیا پھر بہو کی آنکھ کھل گئی تو وہ چیخنے لگی تو سسر نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ لیا،اور اسکے اوپر اپنی ٹانگ رکھ دی کہ وہ اٹھنے نہ پائے اس حالت میں سسر نے شلوار بھی اتاری ہوئی تھی،سسر نے بہو کی شلوار بھی اتار دی تھی لیکن صحبت سے بہو نے خود کو بچا لیا۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟؟ کیا اب شوھر کو بیوی کو طلاق دینی پڑے گی۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ واقعہ اگر سچ اور صحیح ہے، نیز بیوی  کے  خبر دینے پر  اس کا شوہر ان تمام باتوں کی تصدیق کردیتا ہے تو پھر بیوی  اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی،کسی بھی صورت میں حلال نہیں ہو سکتی لہذا  اب بیوی  اور اس کے شوہر کے درمیان علیحدگی کا طریقہ یہ ہے کہ  شوہر یہ  الفاظ کہ " میں نے تجھے چھوڑ دیا (یااس کے ہم مثل الفاظ )" کہہ کر یا طلاق دے دی کہہ کر بیوی کو   الگ کر دے ، شوہر کے چھوڑنے کے بعد بیوی اپنی عدت (تین مکمل ماہواری اگر حاملہ نہیں ہے اور وضع حمل اگر حاملہ ہے)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج، وإن صدقه الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج."

(کتاب النکاح باب  ثالث، قسم ثانی ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۷۶، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا قبلها ثم قال: لم يكن عن شهوة أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال: لم يكن بشهوة فقد ذكر الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - في التقبيل يفتى بثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبل بغير شهوة وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر، كذا في المحيط. هذا إذا كان المس على غير الفرج وأما إذا كان على الفرج فلا يصدق أيضا، كذا في الظهيرية."

(کتاب النکاح باب  ثالث، قسم ثانی ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۷۶، دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قبل أم امرأته) في أي موضع كان على الصحيح جوهرة (حرمت) عليه (امرأته ما لم يظهر عدم الشهوة) ولو على الفم كما فهمه في الذخيرة (وفي المس لا) تحرم (ما لم تعلم الشهوة) لأن الأصل في التقبيل الشهوة، بخلاف المس.....وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا.

(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات ج نمبر ۳ ص نمبر ۳۵، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں