بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا اپنے بیٹے کی بیوہ کو اپنے گھر لے جانا


سوال

میری بہن کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے عدت کی مدت گزارنے کے لیے ہم اسے اپنی اماں کے کہنے پر اپنے گھر لے آئے اس بہن کے ۲ بیٹے ہیں،  ایک بیٹے کی عمر ایک سال ہے دوسرے بیٹے کی عمر   ایک سال ہے ۔عدت کی مدت پوری ہونے پر میری بہن کے سسر میری بہن کو لینے آگئے ہیں کہ یہ ہمارے گھر رہے گی میری بہن کے سسرال میں ان کے ۲ بیٹے اپنی بیویوں کے ساتھ رہتے ہیں میری بہن بے پردگی کی وجہ سے جانا نہیں چاہتی۔  مہربانی فرماکر کتابوں کے حوالے سے فتوی عنایت فرمائیں کہ ہمارا دین اس بارے میں کیا فرماتا ہے؟

جواب

صور تِ  مسئولہ میں سائل کی بہن پر اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارنا لازم تھا،ترکِ واجب پر گناہ گار ہوئی ،استغفار کرے،اب  چوں کہ اس  کی عدت پوری ہوچکی ہے؛  لہذا  سائل کی بہن کو اختیار ہے کہ وہ اپنی ماں کے گھر میں رہے  یا اپنےمتوفی شوہر کے گھر میں؛  لہذا سسر کا سائل کی بہن کو اس کی رضامندی کے بغیر اپنے گھر لے جانا جائز نہیں ہے،  جب کہ  وہاں  بے پردگی کا بھی کا خطرہ ہے۔ 

العنایۃ شرح الہدایۃ میں  ہے:

"وقوله «و قال صلى الله عليه وسلم للتي قتل زوجها، هي فريعة بنت مالك بن أبي سنان أخت أبي سعيد الخدري لما قتل زوجها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم استأذنت أن تعتد في بني خدرة، لا في بيت زوجها، فأذن لها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما خرجت دعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لها: أعيدي المسألة، فأعادت فقال لها: لا حتى يبلغ الكتاب أجله» يعني لاتخرجي حتى تنقضي عدتك. و في هذا الحديث دليل على حكمين. على أنها يجب عليها أن تعتد في منزل الزوج."

(کتاب الطلاق ، باب العدۃ ،فصل فی الحداد جلد۴ ص:۳۴۴ ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لاتنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لا يكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل."

(کتاب الطلاق ، فصل فی احکام العدۃ جلد ۳ ص:۲۰۵ ،۲۰۶ ط:دارالکتب العلمیۃ )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307102027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں