بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرخ و سیاہ باریک لباس پہننے اور فینسی لباس پہننے والے کی امامت کا حکم


سوال

 اکثر اوقات  (مردوں کےلئے)مکمل سیاہ لباس زیبِ تن کرنا اور سرخ رنگ کا لباس پہننا، باریک لباس جس میں بدن نظر آئے اور فینسی ملبوسات زیبِ تن کرکے امامت کروانے کی  شرعی حیثیت کیا ہے؟ شرعی طور پر راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

مردوں کے لیے لباس سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ وہ ایسا لباس پہنیں جس لباس میں فاسقوں اور کافروں سے مشابہت نہ  ہو، اور نہ وہ زنانہ لباس کی طرح ہو، اسی طرح وہ کسم یا زعفران سے رنگا ہوا بھی نہ ہو۔ 

نیزقرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ.[الأعراف:26]

ترجمہ:اے اولاد ِ آدم کی! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری پردہ داریوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجبِ زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس،یہ اس سے بڑھ کرہے۔یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔(از بیان القرآن)

مزید فرمایا:

"يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ."[الأعراف:31]

ترجمہ:اے اولاد آدم کی! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو،بے شک اللہ تعالٰی پسند نہیں کرتے حد سے نکل جانے والوں کو(ازبیان القرآن)

اور سورہ نحل میں فرمایا:

"وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلاَلاً وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ."[النحل:81]

ترجمہ: اور اللہ ہی نے تمہارے  لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں میں سے سائے بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں غار بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے کرتے بنائےہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں وہ اسی طرح اپنی پوری پوری نعمتیں دے رہا ہے کہ تم حکم بردار بن جاؤ۔(ازبیان القرآن)

مذکورہ آیات میں لباس کے تین اہم بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں:

1۔ستر پوشی

2۔زیب وزینت کا حصول

3۔موسمی شدت سے بچاؤ

اس لیے ہر وہ لباس جو انسان کی سترپوشی کرے، پہنا ہوا خوبصورت لگے اور گرم و سرد موسم کی شدت سے بچائے، شرعاً جائز ہے، اور اگر کوئی دوسری شرعی ممانعت نہ ہو تو اسے پہن کر نماز ادا کرنا‘ جماعت کروانا بھی درست ہے۔

 نیزنبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے فی الجملہ سیاہ (کالے ) رنگ کا لباس زیبِ تن فرمانا ثابت ہے۔

ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم ایک صبح گھر سے نکلے دراں حالیکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم  پر  کالے بالوں کی چادر تھی۔

 ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لیے سیاہ چادر بنائی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم  نے اسے زیب تن فرمایا،اورفتح مکہ کےدن آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سیاہ عمامہ پہنا،تاہم مکمل سیاہ لباس، یعنی  تہبند اور اوپر کی چادر یا قمیص اور تہبند دونوں سیاہ ہوں یہ ثابت نہیں ہے۔  غرض فی نفسہ کالے رنگ کے کپڑے پہننے میں حرج نہیں ہے۔  البتہ آج کے دور میں مکمل کالا لباس  بعض اہلِ باطل کا شعار بن چکا ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ پورے کالے لباس سے جہاں تک ہوسکے احتیاط رکھیں، (خصوصاً جن دنوں میں وہ کالے لباس کا اہتمام کرتے ہیں ان دنوں میں تو بالکلیہ اجتناب کریں)؛  تاکہ ان کی مشابہت سے بچ جائیں، کیوں کہ فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

نیز   مردوں کے  لیے خالص سرخ رنگ کا لباس  (جس میں دوسرا بالکل نہ ہو) پہننے کی ممانعت بعض روایات میں آئی ہے، اس ممانعت کی حیثیت کے حوالے سے فقہاءِ کرام کے مختلف اقوال ہیں؛ بہرحال خالص سرخ رنگ میں عورتوں سے مشابہت بھی ہے،  اس  لیے اس کا مکروہ ہونا راجح ہے، لہٰذا مردوں کو  خالص سرخ رنگ کا لباس  استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے،خصوصا ائمہ حضرات کو، البتہ اگر اس میں کسی اور رنگ کی آمیزش ہو یا وہ دھاری دھار ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔ نیز بہت زیادہ شوخ رنگ  اور اعتدال سے زیادہ کڑھائی اور سنگھار والے کپڑے پہننا بھی مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

 نیزلباس  کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ وہ ( لباس) ساتر ہو، یعنی جس حصے کا چھپانا واجب ہے وہ کھلا نہ رہے، نہ ایسا باریک ہو کہ جسم نظر آنے لگے اور نہ اتنا چست ہو کہ بدن کے جن اعضا کو چھپانا ضروری ہے  ان میں سے کسی کی بناوٹ اور حجم نظر آجائے، لہٰذا اگر باریک کپڑا  اتنا باریک ہو کہ اس سے ستر نظر آتا ہو تو اُسے پہن کر نماز ادا کرنے سے نماز نہیں ہوتی،  الا یہ کہ اس کے اوپر کوئی بڑی چادر اوڑھ کر نماز ادا کی جائے۔ اسی طرح اگر لباس اتنا چست اور تنگ ہو کہ اس سے مستورہ اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کو پہننا، اسے پہن کر نماز پڑھنا، باہر نکلنا، لوگوں کو دکھانا  سب ناجائز ہے اور اس حالت میں دوسروں کا اسے دیکھنابھی ممنوع ہے۔

لیکن اگر لباس اتنا باریک نہ ہو کہ اس سے ستر نظر آتا ہو، مثلًا: مرد باریک قمیص پہنے، لیکن نیچے بنیان ہو اور شلوار یا پاجامہ بھی موٹا ہو، یا لباس دوہرا ہونے کی وجہ سے اعضاءِ مستورہ نظر نہ آتے ہوں تو اس میں نماز ہوجائے گی۔ البتہ عورت کے لیے چوں کہ پورا جسم سوائے چہرے، ہتھیلیوں اور قدموں کے ستر ہے، اس لیے عورت کے جسم کا کوئی بھی حصہ باریک لباس سے ظاہر ہوا تو نماز نہیں ہوگی۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عائشة، قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات غداة وعليه ‌مرط ‌من ‌شعر أسود .هذا حديث حسن غريب صحيح."

 ( باب ما جاء في الثوب الأسود،5/ 119 ،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

سنن أبی داود  میں ہے:

"عن عائشة، قالت: صنعت لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - ‌بردة ‌سوداء فلبسها، فلما عرق فيها وجد ريح الصوف فقذفها، قال: وأحسبه قال: وكان تعجبه الريح الطيبة."

 (بابفي السواد،6/ 175 ،ط:دار الرسالة العالمية)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن جابر قال: «دخل النبي صلى الله عليه وسلم مكة يوم الفتح وعليه عمامة سوداء."

(سنن الترمذي،باب ماجاء فی العمامۃ السوداء، (4/ 225)ط:مصطفیٰ البابی مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وندب لبس السواد)

 (قوله: وندب لبس السواد)؛ لأن محمداً ذكر في السير الكبير في باب الغنائم حديثاً يدل على أن لبس السواد مستحب."

(كتاب الخنثي،6/ 755،ط:سعيد)

الدر المختار  میں ہے:

"وفي التتارخانية: ولاتعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: وظاهره منعها من السواد تأسفاً على موت زوجها فوق الثلاثة."

(باب العدة،فصل في الحداد،3/ 533،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وكره لبس المعصفر والمزعفر الأحمر والأصفر للرجال) مفاده أنه لا يكره للنساء (ولا بأس بسائر الألوان) وفي المجتبى والقهستاني وشرح النقاية لأبي المكارم: لا بأس بلبس الثوب الأحمر اهـ.

ومفاده أن الكراهة تنزيهية لكن صرح في التحفة بالحرمة فأفاد أنها تحريمية وهي المحمل عند الإطلاق قاله المصنف. قلت: وللشرنبلالي فيه رسالة نقل فيها ثمانية أقوال منها: أنه مستحب

(قوله لا بأس بلبس الثوب الأحمر) وقد روي ذلك عن الإمام كما في الملتقط اهـ ط (قوله ومفاده أن الكراهة تنزيهية) لأن كلمة لا بأس تستعمل غالبا فيما تركه أولى منح (قوله في التحفة) أي تحفة الملوك منح (قوله فأفاد أنها تحريم إلخ) هذا مسلم لو لم يعارضه تصريح غيره بخلافه ففي جامع الفتاوى قال أبو حنيفة والشافعي ومالك: يجوز لبس المعصفر وقال جماعة من العلماء: مكروه بكراهة التنزيه، وفي منتخب الفتاوى قال صاحب الروضة يجوز للرجال والنساء لبس الثوب الأحمر والأخضر بلا كراهة، وفي الحاوي الزاهدي يكره للرجال لبس المعصفر والمزعفر والمورس والمحمر أي الأحمر حريرا كان أو غيره إذا كان في صبغه دم وإلا فلا، ونقله عن عدة كتب، وفي مجمع الفتاوى لبس الأحمر مكروه وعند البعض لا يكره، وقيل يكره إذا صبغ بالأحمر القاني لأنه خلط بالنجس وفي الواقعات مثله ولو صبغ بالشجر البقم لا يكره ولو صبغ بقشر الجوز عسليا لا يكره لبسه إجماعا اهـ فهذه النقول مع ما ذكره عن المجتبى والقهستاني وشرح أبي المكارم تعارض القول بكراهة التحريم إن لم يدع التوفيق بحمل التحريم على المصبوغ أو بالنجس أو نحو ذلك (قوله وللشرنبلالي فيه رسالة) سماها تحفة الأكمل والهمام المصدر لبيان جواز لبس الأحمر وقد ذكر فيها كثيرا من النقول منها ما قدمناه وقال لم نجد نصا قطعيا لإثبات الحرمة ووجدنا النهي عن لبسه لعلة قامت بالفاعل من تشبه بالنساء أو بالأعاجم أو التكبر وبانتفاء العلة تزول الكراهة بإخلاص النية لإظهار نعمة الله تعالى وعروض الكراهة للصبغ بالنجس تزول بغسله، ووجدنا نص الإمام الأعظم على الجواز ودليلا قطعيا على الإباحة، وهو إطلاق الأمر بأخذ الزينة ووجدنا في الصحيحين موجبه، وبه تنتفي الحرمة والكراهة بل يثبت الاستحباب اقتداء بالنبي - صلى الله عليه وسلم - اهـ ومن أراد الزيادة على ذلك فعليه بها. أقول: ولكن جل الكتب على الكراهة كالسراج والمحيط والاختيار والمنتقى والذخيرة وغيرها وبه أفتى العلامة قاسم وفي الحاوي الزاهدي ولا يكره في الرأس إجماعا (قوله ثمانية أقوال) نقلها عن القسطلاني (قوله منها أنه مستحب) هذا ذكره الشرنبلالي بحثا كما قدمناه وليس من الثمانية..."

(كتاب الحظر والإباحة،فصل في اللبس،6/ 358،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) سترها (عن نفسه) به يفتى، فلو رآها من زيقه لم تفسد وإن كره. (وعادم ساتر) لا يصف ما تحته، ولا يضر التصاقه وتشكله ولو حريرا أو طينا يبقى إلى تمام صلاة أو ماء كدرا إلا صافيا إن وجد غيره.

(قوله لا يصف ما تحته) بأن لا يرى منه لون البشرة احترازا عن الرقيق ونحو الزجاج (قوله ولا يضر التصاقه) أي بالألية مثلا، وقوله وتشكله من عطف المسبب على السبب. وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظا لا يرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئيا فينبغي أن لا يمنع جواز الصلاة لحصول الستر. اهـ."

(كتاب الصلاة،باب شروط الصلاة،مطلب في ستر العورة،1/ 410،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں