ایک سرکاری ملازم اپنے اضافی کام کے لیے اپنا فکس شدہ کمیشن لے سکتا ہے اس کے سارے ہم منصبوں کے لئے کمیشن فکس ریٹ کا ہےاور اس سارے محکمے کو پتہ ہے کہ کس کا کتنا حصہ ہےمزید یہ کہ اگر وہ اپنا حصہ نہ لے تو تقسیم کرنے والا وہ حصہ خود رکھ لیتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنا حصہ لے کہ نہ لے ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سرکاری ملازمین کے لیے حکومت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے اضافی کام کرنے کا طے شدہ کمیشن مقرر ہے اور یہ کام مذکورہ ملازمین کی آفیشل ڈیوٹی میں شامل نہیں ہیں تو ملازمین کے لیے اس کا لینا جائز ہے، اور اگر متعلقہ ادارے اور حکومت سے مقرر نہیں ہے تو لینا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و لايجوز أخذ المال ليفعل الواجب."
(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: ۵، صفحہ:۳۶۲، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة".
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ج: ۶، صفحہ: ۶۳، ط: ایچ، ایم، سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101394
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن