بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ثریا ستارے کے طلوع سے آفات کا ختم ہوجانا


سوال

ایک صاحب نے پیغمبر اکرم ﷺ کی ایک حدیث کے بارے میں گفتگو کی ہے،  مسند احمد میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ثریا ستارہ طلوع ہوا تو وبا ختم ہوجائے گی۔ عربی زبان میں اسے  ’’إذا طلع النجم رفعت العاهة‘‘  کہا جاتا ہے۔  جو موسم گرما کے آغاز میں یہ طلوع ہوگا۔ کیا اس طرح کی کوئی حدیث ہے اور کیا یہ صحیح ہے؟  وضاحت کی امید ہے۔ کیا ہم ستاروں پر بولنے والی حدیثیں لے سکتے ہیں؟ اس حدیث کا شرعی حکم کے مطابق کیا حکم ہے؟

جواب

(۱۰۲۳۷) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه ‌صلی ‌الله ‌علیه ‌وآله ‌وسلم: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ رُفِعَتِ الْعَاهَةُ)) (مسند احمد: ۸۴۷۶)

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب (ثریا) ستارہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے، تو آفت ختم کر دی جاتی ہے۔

مذکورہ حدیث اور  اس جیسی دیگر احادیث سے ملانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان احادیث کا اولین مصداق پھلوں پر آنے والی آفات ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ لوگ باغات کے پھلوں کا سودا پھل ظاہر  ہونے سے پہلے ہی کرلیتے تھے، لیکن بسا اوقات کسی آفت کی وجہ سے پھل نہیں آتا، یا خراب ہوجاتا تو  عاقدین (خریدار اور فروخت کنندہ) میں اختلاف اور جھگڑا ہوجاتا، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی اس سلسلے میں کئی مقدمات پیش کیے گئے، تو  آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت دی کہ جب تک پھل کی صلاحیت ظاہر نہ ہوجائے یعنی وہ انسان یا جانور کے کسی استعمال کے قابل نہ ہوجائے تب تک باغات کا سودا نہ کیا جائے۔ چوں کہ درختوں پر پھل آنے سے پہلے عموماً جو آفات لاحق ہوتیں وہ سردی کے موسم سے لے کر موسمِ بہار کی ابتدا تک ہوتی تھیں، اور موسمِ بہار کے شروع ہوجانے کے بعد پھل عموماً  آفتوں سے محفوظ ہوجاتے تھے، اور یہ وقت ثریا ستارہ طلوع ہونے کا وقت ہوتا ہے، اس تناظر میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشادات فرمائے، جن کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب تک پھل کی صلاحیت ظاہر نہ ہو اس کا سودا نہ کیا جائے، اور پھلوں کا آفات سے محفوظ ہوکر صلاحیت کا ظاہر ہونا عموماً ثریا ستارے کے طلوع کے وقت ہوتاہے، اس کے بعد چوں کہ حجاز کے علاقوں میں پھل درختوں پر ظاہر ہوجاتے تھے، اور قابلِ استعمال بھی ہوتے تھے؛ اس لیے اس کے بعد باغات کے سودوں کی اجازت دی گئی۔

البتہ اگر تفاؤلاً عموم مراد لے کر دیگر آفات بھی مراد لی جائیں اوراللہ تعالی سے  اچھی امید رکھی جائے  تو یہ اللہ تعالی سے حسنِ ظن  ہے، اور اگر  پھر بھی وبا رفع نہ ہو تو اس سے حدیث کے مضمون و صداقت پر اثر نہیں پڑے گا، بلکہ اس صورت میں وبا ختم نہ ہونے کو اپنے گناہوں کی سزا سمجھا جائے۔

نیز مذکورہ حدیث کا مطلب ستاروں کے طلوع یا غروب سے لوگوں کے احوال اور نصیب کا بننا بگڑنا نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ستاروں کی صلاحیت کو لازمی سمجھنے کا عقیدہ رکھنے کی مذمت فرمائی ہے،  اور اللہ پاک نے ایسے بندوں کو کافر و ناشکرا  کہاہے؛ کائنات کا نظام چلانے والے اللہ تعالیٰ یکتا ہیں، انہوں  نے اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت مختلف امور کو اسباب سے جوڑ دیا ہے، ان ہی اسباب میں سے ستاروں اور سیاروں کی حرکت کا نظام ہے، اور اس حرکت و گردش سے مختلف موسم (بارش، گرمی، سردی وغیرہ وغیرہ) جوڑ دیے ہیں، پھر  فصل اور  پھلوں کے اگنے سے لے کر ان کی پختگی اور ذائقے میں سال کے ان مختلف موسموں اور سورج، چاند کی گردش کے اثرات رکھ دیے۔ اللہ چاہے تو ان اسباب کو تبدیل کردے، چاہے تو بلاسبب  ہی سب کچھ دے دے، چاہے تو تمام اسباب مکمل ہوکر بھی کچھ نتیجہ حاصل نہ ہو۔ لہٰذا مذکورہ حدیث یا ستاروں سے متعلق جو حدیث ہو، اسے اس کے پس منظر کو دیکھ اسی پیرائے میں بیان کیا جائے جس تناظر میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔

"عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ الله عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ قَالَ الْمُبْتَاعُ: إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ، أَصَابَهُ قُشَامٌ. عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ: "فَإِمَّا لَا، فَلَا تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ"، كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا؛ لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ.

وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا، فَيَتَبَيَّنَ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ". (کتاب البیوع (3372) سنن أبي داود)

قال الإمام ابن القيم رحمه الله في "زاد المعاد في هدي خير العباد" ( ٤ / ٥٣ ):

"وقد روي في حديث: ( إذا طلع النجم ارتفعت العاهة عن كل بلد).

وفُسّر بطلوع الثريا. وفُسّر بطلوع النبات زمن الربيع ومنه: (والنجم والشجر يسجدان)، فإنّ كمال طلوعه وتمامه يكون في فصل الربيع، وهو الفصل الذي ترتفع فيه الآفات. و أما الثريا، فالأمراض تكثر وقت طلوعها مع الفجر وسقوطها. قال التميمي في كتاب "مادة البقاء": أشدّ أوقات السنة فسادًا، وأعظمها بلية على الأجساد وقتان: أحدهما: وقت سقوط الثريا للمغيب عند طلوع الفجر. والثاني: وقت طلوعها من المشرق قبل طلوع الشمس على العالم، بمنزلة من منازل القمر، وهو وقت تصرُّم فصل الربيع وانقضائه، غير أن الفساد الكائن عند طلوعها أقل ضررًا من الفساد الكائن عند سقوطها.

وقال أبو محمد بن قتيبة: يقال: ما طلعت الثريا، ولا نَأتْ إلا بعاهة في الناس والإبل، وغروبها أعوَهُ من طلوعها. وفي الحديث قول ثالث - ولعله أولى الأقوال به - أن المراد بالنجم: الثريا، وبالعاهة: الآفة التي تلحَق الزروع والثمار في فصل الشتاء وصدرَ فصل الربيع، فحصل الأمن عليها عند طلوع الثريا في الوقت المذكور، ولذلك نهى صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمرة وشرائها قبل أن يبدوَ صلاحُها".

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200998

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں