بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ النور کی آیت نمبر:35 کی تشریح


سوال

1۔کیا اللہ نور ہے؟تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ اللہ کی ذات نور ہے۔

2۔حدیث میں ہے کہ نور خداوندی کے اوپر ستر ہزار نور کے پردے ہیں تو ستر ہزار نورانی حجاب کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یا اللہ کی مخلوق ؟

3۔نورِ ہدایت اور نورِ خداوندی میں کیا فرق ہوگا؟

جواب

1: قرآنِ مجید میں رب باری کا فرمان ہے:

"اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ "

"ترجمہ: اللہ تعالیٰ نور (ہدایت) دینے والا ہے آسمانوں کا اور زمین کا ۔"

(سورۃ النور، رقم الآیۃ:35، ترجمہ:بیان القرآن)

مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ کے نور ہونے سے مراد ہدایت دینے والا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات آسمان اور زمین موجود تمام مخلوق کو ہدایت دینے والا ہے، جیسے کہ مذکورہ آیت کے تحت تفسیرِ معارف القرآن (لمفتی محمد شفیعؒ المتوفی:) میں ہے:

"آیت مذکورہ کو اہل علم آیت نور لکھتے ہیں کیونکہ اس میں نور ایمان اور ظلمت کفر کو بڑی تفصیلی مثال سے سمجھایا گیا۔

نور کی تعریف : امام غزالی نے یہ فرمائی الظاہر بنفسہ والمظھر لغیرہ، یعنی خود اپنی ذات سے ظاہر اور روشن ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر و روشن کرنے والا ہو۔ اور تفسیر مظہری میں ہے کہ نور دراصل اس کی کیفیت کا نام ہے جس کو انسان کی قوت باصرہ پہلے ادراک کرتی ہے اور پھر اس کے ذریعہ ان تمام چیزوں کا ادراک کرتی ہے جو آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں جیسے آفتاب اور چاند کی شعاعیں ان کے مقابل اجسام کثیفہ پر پڑ کر اول اس چیز کو روشن کردیتی ہیں پھر اس سے شعاعیں منعکس ہو کر دوسری چیزوں کو روشن کرتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ لفظ نور کا اپنے لغوی اور عرفی معنے کے اعتبار سے حق تعالیٰ جل شانہ کی ذات پر اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جسم اور جسمانیات سب سے بری اور وراء الوری ہے اس لیے آیت مذکورہ میں جو حق تعالیٰ کے لیے لفظ نور کا اطلاق ہوا ہے اس کے معنے باتفاق ائمہ تفسیر منور یعنی روشن کرنے والے کے ہیں یا پھر صیغہ مبالغہ کی طرح صاحب نور کو نور سے تعبیر کردیا گیا جیسے صاحب کرم کو کرم اور صاحب عدل کو عدل کہہ دیا جاتا ہے۔ اور معنے آیت کے وہ ہیں جو خلاصہ تفسیر میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نور بخشنے والے ہیں آسمان و زمین کو اور اس میں بسنے والی سب مخلوق کو اور مراد اس نور سے نور ہدایت ہے۔ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ اللہ ھادی اھل السموات والارض۔"

(سورۃ النور، رقم الآیۃ:35، ج:6، ص:422، ط:معارف القرآن کراچی)

2: نور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔

3: نورِ خداوندی سے مراد نورِ ہدایت ہے۔

جامع البیان فی تاویل القرآن (تفسير الطبري) میں ہے:

"القول في تأويل قوله تعالى: {الله نور السموات والأرض مثل نوره كمشكاة فيها مصباح المصباح في زجاجة الزجاجة كأنها كوكب دري يوقد من شجرة مباركة زيتونة لا شرقية ولا غربية يكاد زيتها يضيء ولو لم تمسسه نار نور على نور يهدي الله لنوره من يشاء ويضرب الله الأمثال للناس والله بكل شيء عليم} يعني تعالى ذكره بقوله: {الله نور السموات والأرض} هادي من في السماوات والأرض، فهم بنوره إلى الحق يهتدون , وبهداه من حيرة الضلالة يعتصمون. واختلف أهل التأويل في تأويل ذلك، فقال بعضهم فيه نحو الذي قلناذكر من قال ذلك: حدثني علي، قال: ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن علي، عن ابن عباس، قوله: {الله نور السموات والأرض} «يقول الله سبحانه هادي أهل السماوات [ص:296] والأرض»حدثني سليمان بن عمر بن خالد الرقي، قال: ثنا وهب بن راشد، عن فرقد، عن أنس بن مالك، قال: " إن إلهي يقول: نوري هداي " وقال آخرون: بل معنى ذلك: الله مدبر السماوات والأرض".

(سورۃ النور، رقم الآیۃ:35، ج:17، ص:295، ط:دار ہجر للطباعۃ والنشر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں