بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ المؤمنون کی آیت 117 میں برھٰن کی جگہ برحان پڑھنے سے نماز فاسد ہوگی یا نہیں؟


سوال

اگر نماز میں سورۃ المؤمنون کی آیت"وَمَن يَدْعُ مَعَ اللّٰهِ إِلٰهًا ءَاخَرَ لَا بُرْهٰنَ لَهُۥ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهٗ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُونَ"میں "برھٰن" کی جگہ "برحان" پڑھ دیا تو نماز ہو جائے گی ؟اور تصحیح بھی رکعت میں نہیں کی اور اگر جماعت سے نماز پڑھائی ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب

نماز میں قراءت میں الفاظ کے تلفظ کی مطلق کمی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، اگر قرآن کی تلاوت  میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے،لیکن  اگر تلفظ (مثلاًمخارج وصفات) کی تبدیلی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو، لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔

لہذا مذکورہ آیت میں "برھٰن" کی جگہ "برحان"پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوئی،نماز ادا ہوجائے گی،اور اگرنماز  جماعت سے پڑھائی گئی ہو تب بھی نمازکو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے،تاہم اگرقاری نے درست تلاوت پر قدرت ہوتے  ہوئے اور علم ہوتے  ہوئے ایسی غلطی کی ہو تو  کراہت  ضرور ہوگی، اور  تلاوت کے اجر میں کمی ہوگی؛ لہٰذا   اگر نماز  میں ایسی غلطی کا احساس ہوجائے تو اس آیت یا ان الفاظ کی نماز میں ہی تصحیح کرنی چاہیے، لیکن اگر کسی وجہ سے اس کو درست نہیں کیا تو بھی نماز ادا ہوجائے گی،البتہ قاری صاحب کو کوشش کرنی چاہیے کہ تلفظ صحیح اور حروف اپنے اپنے مخارج سے نکالے۔

"فتاوی تاترخانیہ" میں ہے:

"والحاصل من الجواب في جنس هذه المسائل أن الكلمة مع حرف البدل إذا كانت لا توجد في القرآن والحرفان من مخرج واحد أو بينهما قرب المخرج ويجوز إبدال أحد الحرفين عن الآخر: لا تفسد صلاته عند بعض المشائخ رحمهم الله، وعليه الفتوي، وعلي هذا إذا قرأ في صلاته "فإما اليتيم فلا تكهر" بالكاف لا تفسد صلاته علي ما اختاره بعض المشائخ۔۔۔۔وإذا قال "الهمد لله"بالهاء تفسد أذا كان لا يجهد لتصحيحه،وينبغي أن لا تفسد لأن الهاء تبدل من الحاء يقال "مدحته"و"مدهته"۔۔۔۔۔."

(كتاب الصلاة،الفرائض،ج:1،ص:466،ط:ادارة القرآن)

"غنية المتملي" ميں هے:

"(وإن بدل) القارئ في الصلوة (حرفا مكان حرف)(الأصل فيه) اي في ذلك التبديل أنه (إن كان بينهما) اي بين الحرفين المبدل المبدل منه (قرب المخرج) كالقاف مكان الكاف (أو كانا من مخرج واحد)كالسين مع الصاد (لا تفسد) صلاته وزاد في المحيط قيدا لا بد منه وهو أن يجوز ابدال أحدهما من الآخر وإلا فهو منقوض بمسائل كثيرة كما سيأتي ان شاء الله تعالي."

(ج:1،ص:477،ط:سهيل اكيڈمي لاهور)

فتاوي عالمگيريه ميں هے:

"(ومنها) ذكر حرف مكان حرف إن ذكر حرفا مكان حرف ولم يغير المعنى بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبه ذلك لم تفسد صلاته وإن غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته. هكذا في فتاوى قاضي خان.

وكثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري."

(کتاب الصلوۃ، الفصل الخامس فی زلة القارئ،ج:1،ص:79،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں