بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورت کے درمیان میں رکوع کرنے کا حکم / سجدہ سہو کب لازم ہوتا؟


سوال

1۔اگر ہم نماز میں کوئی سورت کی تلاوت کر رہے ہوں اور اگر اس کے بیچ میں ہم رکوع میں چلے جائیں غلطی سے تو گناہ تو نہیں ہے؟

2۔اگر ہم سورت پڑھتے ہوئے رکوع میں جاتے جاتے واپس آئیں تو کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ کیا اس میں ہم کو سجدہ سہو کرنا ہوگا؟

3۔سجدہ سہو کب واجب ہوتا ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر سائل  مقدارِ فرض یعنی ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں قراءت  پڑھنے کے بعد رکوع کیا تو سائل کی نماز ادا ہوجائےگی، بیچ سورت میں   رکوع کرنے کی وجہ سے گناہ نہیں ہوگا۔

2۔صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص نے فرض کی مقدار قراءت کرلی پھر   سورت پڑھتے ہوئے رکوع میں جاتے جاتے واپس آجائے تو اگر وہ رکوع کی حالت کے زیادہ قریب تھا تو وہ رکوع شمار ہوگا، رکوع سے واپس قیام کی طرف لوٹنے کی وجہ سے وہ رکوع ادا نہیں ہوگا، قراءت کرنے کے بعد دوبارہ رکوع کرنا لازم ہوگا اور سجدہ سہو بھی لازم ہوگا۔

3۔سجدہ سہو واجب ہونے کا اصول یہ ہے کہ  نماز کا کوئی واجب  بھول کر چھوٹ جانے سے، یا بھول کر نماز کے فرض  یا واجب کی تاخیر سے  یا بھول کر واجب کے تکرار سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لوجوب تقديمها) أي تقديم قراءة الواجب. أما قراءة الفرض فتقديمها على الركوع فرض لا ينجبر بسجود السهو.

والتحقيق أن تقديم الركوع على القراءة مطلقا موجب لسجود السهو، لكن إذا ركع ثم قام فقرأ، فإن أعاد الركوع صحت صلاته وإلا فسدت. أما إذا ركع قبل القراءة أصلا فظاهر. وأما إذا قرأ الفاتحة مثلا ثم ركع فتذكر السورة فعاد فقرأها ولم يعد الركوع فلأن ما قرأه ثانيا التحق بالقراءة الأولى فصار الكل فرضا فارتفض الركوع فإذا لم يعده تفسد صلاته، نعم إذا كان قرأ الفاتحة والسورة ثم عاد لقراءة سورة أخرى لا يرتفض ركوعه كما نقله في الحلية عن الزاهدي وغيره، فقد ظهر أن إيقاع الركوع قبل القراءة أصلا أو قبل قراءة الواجب يلزم به سجود السهو، لكن إذا لم يعد الركوع يسقط سجود السهو لفساد الصلاة، وإن أعاده صحت ويسجد للسهو."

(كتاب الصلوة، باب سجود السهو،ج:2،ص:80،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها القراءة) وفرضها عند أبي حنيفة - رحمه الله - يتأدى بآية واحدة وإن كانت قصيرة. كذا في المحيط وفي الخلاصة وهو الأصح. كذا في التتارخانية والمكتفي بها مسيء. كذا في الوقاية ثم عنده إذا قرأ آية قصيرة هي كلمات أو كلمتان نحو قوله تعالى {ثم قتل كيف قدر} [المدثر: 20] {ثم نظر} [المدثر: 21] يجوز بلا خلاف بين المشايخ."

(كتاب الصلوة،الباب الرابع في صفة الصلاة ،ج1،ص:68،ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"(ومنها الركوع) وقدر الواجب من الركوع ما يتناوله الاسم بعد أن يبلغ حده وهو أن يكون بحيث إذا مد يديه نال ركبتيه. كذا في السراج الوهاج.إذا لم يركع وذهب من القيام إلى السجود بغير السنة بأن خر كالجمل فذلك الانحناء يجزئ عن الركوع والأحدب إذا بلغت حدوبته الركوع يشير برأسه للركوع."

(كتاب الصلوة، باب سجود السهو،ج:2،ص:80،ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"ولا يجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي."

(كتاب الصلوة،الباب الثاني عشر في سجود السهو،ج:1،ص:126،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں