بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ فاتحہ کی جگہ دوسری سورت کے تین چار الفاظ پڑھ لینا


سوال

زید امامت کروا رہا تھا، اس نے نماز جب شروع کروائی تو جب ثناء  سے فارغ ہوئے تو سورۃ فاتحہ کی بجائے دوسری سورت کے تین چار الفاظ پڑھ لیے پھر سورۃ فاتحہ شروع کی، کیا اس صورت میں اس پر سجدہ سہو لازم ہے؟ اگر اس نے سجدہ سہو نہیں کیا تو اس صورت میں نماز ہو جائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر  کسی شخص نے نماز  میں سورہ  فاتحہ سے پہلے بھول سے کوئی دوسری سورت شروع کردی،  اور  ایک رکن کی ادائیگی کے بقدر ( یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر) تاخیر ہونے   کے بعد یاد آنے پر سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کی ہو تو اس صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا، لیکن اگر رکن کی ادائیگی کے بقدرتاخیر ہونے سے پہلے ہی سورہ فاتحہ شروع کردی تو پھر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔

اب صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام نے اگر دوسری سورت کے تین چار الفاظ ادا کر لینے کے بعد سورۃ فاتحہ شروع کی تو ایسی صورت میں اُن پر  سجدہ سہو لازم ہو گیا تھا، لیکن  اگر سجدہ  سہو ادا نہیں کیا گیا تو وقت کے اندر اندر   نماز واجب الاعادہ ہو گی،وقت گزرنے کے بعد  نماز واجب الاعادہ  تو نہیں لیکن اعادہ کرلینا مستحب   ہے۔

اعادہ نہ کرنے کی صورت میں چونکہ نماز ناقص ادا ہوئی اس پر توبہ واستغفار  کریں۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ و من سها عن فاتحة الكتاب في الأولى أو في الثانية و تذكر بعد ما قرأ بعض السورة يعود فيقرأ بالفاتحة ثم بالسورة قال الفقيه أبو الليث: يلزمه سجود السهو وإن كان قرأ حرفًا من السورة و كذلك إذا تذكر بعد الفراغ من السورة أو في الركوع أو بعد ما رفع رأسه من الركوع فإنه يأتي بالفاتحة ثم يعيد السورة ثم يسجد للسهو.‘‘

 (کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السهو، 1/ 126، ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

’’ (وتقديم الفاتحة) على كل (السورة) وكذا ترك تكريرها قبل سورة الأوليين.

(قوله: على كل السورة) حتى قالوا لو قرأ حرفا من السورة ساهيا ثم تذكر يقرأ الفاتحة ثم السورة، ويلزمه سجود السهو بحر، وهل المراد بالحرف حقيقته أو الكلمة، يراجع ثم رأيت في سهو البحر قال بعد ما مر: وقيده في فتح القدير بأن يكون مقدار ما يتأدى به ركن. اهـ.

أي لأن الظاهر أن العلة هي تأخير الابتداء بالفاتحة والتأخير اليسير، وهو ما دون ركن معفو عنه تأمل. ثم رأيت صاحب الحلية أيد ما بحثه شيخه في الفتح من القيد المذكور بما ذكروه من الزيادة على التشهد في القعدة الأولى الموجبة للسهو بسبب تأخير القيام عن محله، وأن غير واحد من المشايخ قدرها بمقدار أداء ركن۔‘‘

(کتاب الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، 1/ 459، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں