بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورہ فاتحہ کے فضائل


سوال

 سورہ فاتحہ کے فضائل قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کریں؟

جواب

سورۂ فاتحہ کے بہت سے فضائل احادیثِ مبارکہ میں وارد ہیں، جو علماءِ کرام نے تفاسیر میں سورۂ فاتحہ کے تحت بھی ذکر فرمائے ہیں، ان فضائل میں سے چند درج ذیل ہیں:

سورہ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے اور آخری تین میں انسان کی طرف سے دعاء و درخواست کا مضمون ہے جو رب العزت نے اپنی رحمت سےخود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد و ثناء کا پہلو ہے کچھ دعاء و درخواست کا۔

صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورہ فاتحہ) میرے اور بندے کےدرمیان دوحصوں میں تقسیم کی گئی ہے نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے  لیے اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب وہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرےبندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرےبندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے؛ کیوں کہ  اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد و ثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعا  و درخواست کا اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی،  پھر جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ(آخرتک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لیے ہے اور اس کو وہ چیز ملےگی جو اس نے مانگی۔  (مظہری  بحوالہ معارف القرآن)

رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ سورۂ فاتحہ کی نظیر نہ تورات میں نازل ہوئی، نہ انجیل اور زبور میں اور نہ خود قرآن کریم میں کوئی دوسری سورت اس کی مثل ہے۔

نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سورۂ فاتحہ ہر بیماری کی شفاء ہے۔

اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی سب سورتوں میں عظیم ترین الحمد للہ رب العالمین ہے !

سنن الترمذي ت شاكر (5 / 155):

عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على أبي بن كعب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أبي» وهو يصلي، فالتفت أبي ولم يجبه، وصلى أبي فخفف، ثم انصرف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: السلام عليك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «وعليك السلام، ما منعك يا أبي أن تجيبني إذ دعوتك» فقال: يا رسول الله إني كنت في الصلاة، قال: " أفلم تجد فيما أوحي إلي أن {استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم} [الأنفال: 24] " قال: بلى ولا أعود إن شاء الله، قال: «تحب أن أعلمك سورة لم ينزل في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها» ؟ قال: نعم يا رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كيف تقرأ في الصلاة» ؟ قال: فقرأ أم القرآن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده ما أنزلت في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، وإنها سبع من المثاني والقرآن العظيم الذي أعطيته» : «هذا حديث حسن صحيح» 

سنن الدارمي (4 / 2122):

 قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «في فاتحة الكتاب شفاء من كل داء» 

صحيح البخاري (6 / 187):

 عن أبي سعيد بن المعلى، قال: كنت أصلي، فدعاني النبي صلى الله عليه وسلم فلم أجبه، قلت: يا رسول الله إني كنت أصلي، قال: " ألم يقل الله: استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم؟ "، ثم قال: «ألا أعلمك أعظم سورة في القرآن قبل أن تخرج من المسجد» ، فأخذ بيدي، فلما أردنا أن نخرج، قلت: يا رسول الله، إنك قلت: «لأعلمنك أعظم سورة من القرآن» قال: «الحمد لله رب العالمين، هي السبع المثاني، والقرآن العظيم الذي أوتيته»

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں