بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنّی مسلمان لڑکی کا اسماعیلی/آغاخانی لڑکے سے نکاح کرنے اور ایسا نکاح کروانے والے کا حکم


سوال

میری بیٹی ایک اسماعیلی شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جو کہ خود کو مسلمان کہتے ہیں، ہم لوگ سنّی مسلمان ہیں، میں نے بیٹی کو کافی منع کیا کہ یہ شادی نہیں ہوسکتی، لیکن میری بیٹی کہتی ہے کہ اگر آپ نے میری پسند سے میری شادی نہیں کی تو میں بالغ ہوں، اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کرلوں گی۔ لیکن میں ان (اسماعیلی شیعہ) کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ سوال یہ ہے:

1۔کیا ہم اسماعیلی شیعہ فرقے/مسلک والوں کو مسلمان سمجھ سکتے ہیں؟

2۔کیا میری بیٹی اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے لڑکے سے شادی کرسکتی ہے؟

3۔ اگر میری بیٹی اس سے شادی کرسکتی ہے تو کن شرائط پر یہ شادی ہوسکتی ہے؟

4۔ اگر میری بیٹی والدین کی مخالفت کر کےاسماعیلی لڑکے سے شادی کرلیتی ہے تو کیا میری بیٹی مسلمان رہے گی؟ اس فعل کا نتیجہ اس دنیا میں اور آخرت میں کیا ہوگا؟

5۔اگر میری بیٹی کی شادی والدین کی مرضی کے بغیر کوئی رشتہ دار کروادیتا ہے تو اس رشتہ دار کا انجام کیا ہوگا؟

جواب

(1)اسماعیلی /آغا خانی فرقہ اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے، یہ فرقہ مسلمانوں سے الگ ایک مستقل فرقہ ہے، اس لیے اسماعیلی / آغاخانی فرقے کو مسلمان سمجھنا غلط ہے۔

(2،3) کسی بھی مسلمان لڑکی کے لیے کافر لڑکے سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے آپ کی بیٹی جو سنّی مسلمان ہے اس کے لیے کسی ایسے لڑکے جو اسماعیلی / آغا خانی فرقے سے تعلق رکھنے والا کافر ہو سے نکاح کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، اگر نکاح کر بھی لیا جائے تب بھی یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا اور ایسا نکاح کر کے ساتھ رہنے سے بدکاری اور زنا کاری کرنے کا گناہ ملتا رہے گا، البتہ اگر اسماعیلی لڑکا اسماعیلی مذہب سے توبہ کر کے دینِ اسلام قبول کرلیتا ہے اوراسلام  پر قائم رہتا ہے تو آپ کی بیٹی کا اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نکاح ناجائز اور بچے حرامی ہوں گے۔

(4)سنّی مسلمان لڑکی اگر اسماعیلی/ آغاخانی فرقے کے کفریہ عقائد پر مطّلع ہونے کے باوجود ان سے نکاح کو جائز سمجھتے ہوئے نکاح کرلے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی، البتہ اگر کوئی سنّی لڑکی اسماعیلی/ آغاخانی فرقے کے کفریہ عقائد پر مطّلع نہ ہو یا مطّلع ہونے کے باوجود ناجائز سمجھتے ہوئے کسی اسماعیلی/ آغاخانی لڑکے سے نکاح کرلے تو وہ دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں ہوگی، لیکن ایک ناجائز اور حرام فعل کے ارتکاب کی وجہ سے وہ شریعت مطہرہ کی رُو سے فاسقہ و فاجرہ کہلائے گی، اور اس کا یہ فعل دنیا و آخرت میں اس کے لیے سخت گناہ، وبال اور عذاب کا باعث ہوگا۔ 

(5) یہی حکم کسی سنّی لڑکی کا نکاح کسی اسماعیلی/ آغاخانی لڑکے سے کروانے والے کا بھی ہے، یعنی اسماعیلی/ آغاخانی فرقے کے کفریہ عقائد پر مطّلع ہونے کے باوجود ان سے نکاح کو جائز سمجھتے ہوئے نکاح کرانے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، البتہ اسماعیلی/ آغاخانی فرقے کے کفریہ عقائد پر مطّلع نہ ہونے کی صورت میں یا مطّلع ہونے کے باوجود ناجائز سمجھتے ہوئے نکاح کرانے والا شخص دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں ہوگا، لیکن حرام فعل کے ارتکاب کی وجہ سے اس کے فاسق و فاجر بننے میں کوئی شک نہیں ہوگا اور اس طرح کا ناجائز فعل کروانا اس کے لیے دنیا و آخرت میں گناہ، وبال اور عذاب کا باعث ہوگا، بلکہ اس ناجائز نکاح کے بعد لڑکے اور لڑکی کو ساتھ رہنے کی وجہ سے جو زنا کاری اور حرام کاری کا گناہ ملے گا اس گناہ میں نکاح کرانے والا شخص بھی ان کے ساتھ شریک ہوگا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ  ۭ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۭ اُولٰئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ  وَاللّٰهُ يَدْعُوْا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِه ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِه لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ} [البقرة: 221]

ترجمہ: اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان عورت (چاہے) لونڈی (کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ) بہتر ہے کافر عورت سے گو وہ تم کو اچھی ہی معلوم ہو۔  اور عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان مرد غلام بہتر ہے کافر مرد سے گو وہ تم کو اچھا ہی معلوم ہو (کیوں کہ) یہ لوگ دوزخ ( میں جانے) کی تحریک دیتے ہیں ۔ اور الله تعالیٰ جنت اور مغفرت کی تحریک دیتے ہیں اپنے حکم سے اور اللہ تعالیٰ اس واسطے آدمیوں کو اپنے احکام بتلادیتے ہیں تاکہ وہ لوگ نصیحت پر عمل کریں ۔ (بیان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلايجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولاتنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} [البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببًا داعيًا إلى الحرام فكان حرامًا، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلايجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لايجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141] فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لايجوز".

(كتاب النكاح،فصل إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة،2/ 271،ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي مجمع الفتاوى: نكح كافر مسلمة فولدت منه لا يثبت النسب منه ولا تجب العدة لأنه نكاح باطل.

(قوله: لأنه نكاح باطل) أي فالوطء فيه زنا لا يثبت به النسب، بخلاف الفاسد فإنه وطء بشبهة فيثبت به النسب ولذا تكون بالفاسد فراشا لا بالباطل رحمتي، والله سبحانه أعلم".

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في ثبوت النسب،3/ 555،ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب استحلال المعصية القطعية كفر لكن في شرح العقائد النسفية: استحلال المعصية كفر إذا ثبت كونها معصية بدليل قطعي، وعلى هذا تفرع ما ذكر في الفتاوى من أنه إذا اعتقد الحرام حلالا، فإن كان حرمته لعينه وقد ثبت بدليل قطعي يكفر وإلا فلا بأن تكون حرمته لغيره أو ثبت بدليل ظني. وبعضهم لم يفرق بين الحرام لعينه ولغيره وقال من استحل حراما قد علم في دين النبي - عليه الصلاة والسلام - تحريمه كنكاح المحارم فكافر. اهـ. قال شارحه المحقق ابن الغرس وهو التحقيق. وفائدة الخلاف تظهر في أكل مال الغير ظلما فإنه يكفر مستحله على أحد القولين. اهـ. وحاصله أن شرط الكفر على القول الأول شيئان: قطعية الدليل، وكونه حراما لعينه. وعلى الثاني يشترط الشرط الأول فقط وعلمت ترجيحه، وما في البزازية مبني عليه".

(كتاب الزكاة،2/ 292،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں