بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سنی لڑکے کا شیعہ لڑکی سے نکاح کاحکم


سوال

  ایک مرد (سنی) عمر 36 سال جو کہ شادی شدہ اور ایک 6 سال کی بچی کا باپ ہے وہ بیرون ملک مقیم ہے جبکہ بیوی اور بچی پاکستان میں ہے۔ وہ مرد ایک اور لڑکی (شیعہ) عمر 32 سال سے فروری2021 میں بیرون ملک شادی کر لیتا ہے یہ بول کر کہ وہ کنوارا ہے جبکہ لڑکی کے شادی سے پہلے بار بار پوچھنے پر بھی وہ خود کو غیر شادی شدہ ہی ظاہر کرتا رہا ۔نکاح  اہل تشیع کے طریقہ کار سے بیرون ملک ہی انجام پایا۔ شادی کے بعد لڑکے کے پہلے سے شادی شدہ ہونے کی حقیقت سامنے آئی تو اس نے پہلی بیوی سے طلاق ہو جانے کی غلط بیانی کی۔ جب یہ سچ بھی کھل گیا کہ پہلی بیوی سے طلاق نہیں ہوئی تو وہ لڑکی(دوسری بیوی) اپنے ماں باپ کے گھر اکتوبر 2021 چلی گئی۔ اس وقت تک اس شادی کو سات ماہ ہو چکے تھے۔ لڑکی نے 4 ماہ اپنےماں باپ کے گھر گزارے اور لڑکے سے کسی بھی طور کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ 4 مہینے بعد لڑکی نے اپنے والد کے ذریعے فروری 2022 کو ای میل کر کے لڑکے سے شیعہ مسلک کے تحت طلاق کرنے کا فیصلہ ارسال کیا۔ لڑکے نے جواب میں اپنا فیصلہ کے لئے وقت مانگا تو لڑکی والوں نے شیعہ عالم سے مشاورت کا ذکر کیا اور بتایا کہ کیوں کہ شادی سے پہلے لڑکے سے شادی شدہ ہونے کا پوچھا گیا تھا اور لڑکے نے جھوٹ بولا لہذا لڑکی والوں کے نزدیک یہ نکاح منعقد ہوا ہی نہیں کیونکہ جھوٹ بول کر اور دھوکے سے یہ نکاح کیا گیا تھا۔ لڑکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لڑکے کی پہلی شادی اور بچی کا علم ہوتا تو وہ اس لڑکے سے کبھی نکاح نہیں کرتی لہذا دھوکے سے کیا گیا یہ نکاح منعقد ہوا ہی نہیں تو اب طلاق کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ لڑکی والوں کے مطابق اب لڑکے لڑکی کا شوہر بیوی کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نا ہی طلاق کی ضرورت ہے کیونکہ دھوکے سے کیا گیا نکاح منعقد ہوا ہی نہیں تھا۔  آپ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ نکاح منعقد ہوا تھا یا جھوٹ بول کر نکاح کرنے سے نکاح کالعدم ہو گیا؟ لڑکا شرعی طریقہ سے نکاح ختم کرنا چاہتا ہے مگر نکاح کے منعقد ہونے یا نا ہونے کا مسئلہ ہے۔ کیا یہ نکاح منعقد ہوا تھا اور کیا اس نکاح کو ختم کرنے کے لئے طلاق کی ضرورت ہے؟  نوٹ: پہلی بیوی کو بھی شوہر کے بیرون ملک دوسرے نکاح کا علم نہیں تھا۔

جواب

اگر کوئی شیعہ قرآن مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتاہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور ایسے شیعہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح جائز نہیں ہوگا، خواہ وہ شیعہ لڑکی ہو اور مسلمان لڑکا اس سے نکاح کرے۔

لہٰذا اگر مذکورہ لڑکی درج بالا عقائد  رکھتی ہے تو سنی لڑکے کے لیے اس سے نکاح جائز نہیں تھا۔ 

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ سنی  لڑکے کا نکاح  شیعہ لڑکی سےشرعا  منعقد ہی نہیں ہوا ، لہذا اس میں طلاق کی ضرورت بھی نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

''وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر ؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة''.

(فصل في المحرمات، کتاب النکاح، جلد 3 ص: 46  ط:  سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308102259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں