بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنی لڑکے کا شیعہ لڑکی سے نکاح کرنا


سوال

میں سنی ہوں، لیکن میں نے چھپ کر ایک شیعیہ لڑکی سے نکاح کیا ہے،  ہم دونوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا ہے، حق مہر بھی دے دیا ،دو گوا ہ بھی تھے، شرعی نکاح تھا، فارم وغیرہ نہیں ملا، کیا یہ نکاح ہو گیا ہے؟ کیا اب ہم ایک دوسرے پر حلا ل ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح منعقد ہونے کے لیے لڑکی کا مسلمان یا  اہلِ کتاب ہونا (بشرط یہ کہ وہ اپنے دین پر قائم ہو، اور مسلمان ہوکر مرتد نہ ہوئی ہو) ضروری ہے، اہلِ کتاب کے علاوہ کسی کافرہ عورت سے مسلمان کا نکاح منعقد  نہیں ہوسکتا، اور مسلمان عورت کا نکاح صرف مسلمان مرد ہی سے ہوسکتاہے، اور جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کامنکر ہو  ایسا شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح جائز نہیں،  اگر کسی نے کرلیا تو ایسا نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوگا۔ البتہ جو شخص عقائدِ منصوصہ کا منکر نہ ہو ، بدعات و رسومات کے بندھن سے جڑا ہو، اور باطل عقائد رکھتاہو، لیکن کلمہ گو ہو ، اور بنیادی عقائد جمہور اہلِ سنت والے ہوں  اس سے نکاح اگرچہ جائز ہے، تاہم مناسب نہیں۔

مذکورہ بالا اصولی تمہید کو مدنظر رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ  اگر مذکورہ  شیعہ لڑکی  قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیلِ امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتی ہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتی ہو  یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتی ہو، یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ’’ بدا‘‘  کا عقیدہ رکھتی ہو (یعنی -نعوذباللہ- کبھی اللہ تعالیٰ سے بھی فیصلے میں خطا ہوجاتی ہے) یا اس کو تسلیم کرتی ہو  یا اس کے علاوہ کوئی کفریہ عقیدہ رکھتی ہو تو یہ لڑکی  اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور اس کے ساتھ  کسی مسلمان کا نکاح جائز ہی نہیں ہے ۔

اور اگر  مذکورہ عقائد میں سے اس کا کوئی عقیدہ نہیں ہےاوراس کے علاوہ کوئی اور کفریہ عقیدہ نہیں ہے یا وہ اپنے عقائد سے صدقِ دل سے توبہ کرے (اس سلسلے میں تقیہ نہ کرے) اور مذکورہ عقائد سے بھی براءت کرے اور ایسے عقیدے رکھنے والوں سے بھی براء ت کرے  تواس سے نکاح جائز ہےاور نکاح کے بعد  وہ حلال ہے۔

 تاہم اگر مذکورہ لڑکی اہلِ تشیع کی مجالس میں شرکت کرتی ہو یا آپ کے  کے لیے نکاح کے بعد اس ماحول میں رنگ جانے کا امکان ہو تو ایسی جگہ نکاح نہیں کرنا چاہیے۔

قرآنِ مجید میں ہے: 

﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ ﴾(الممتحنة: ١٠)

ترجمہ: " نہ وہ (مسلمان عورتیں) ان (کافر مردوں) کے لیے حلال ہیں، اور نہ ہی وہ (کافر) ان (مسلمان عورتوں) کے لیے حلال ہیں"۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة". (ردالمحتار : ٣ / ٤٦ سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

الرَّافِضِيُّ إذَا كَانَ يَسُبُّ الشَّيْخَيْنِ وَيَلْعَنُهُمَا وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ، فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِنْ كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - لَا يَكُونُ كَافِرًا إلَّا أَنَّهُ مُبْتَدِعٌ وَالْمُعْتَزِلِيُّ مُبْتَدِعٌ إلَّا إذَا قَالَ بِاسْتِحَالَةِ الرُّؤْيَةِ، فَحِينَئِذٍ هُوَ كَافِرٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.

وَلَوْ قَذَفَ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا - بِالزِّنَا كَفَرَ بِاَللَّهِ، وَلَوْ قَذَفَ سَائِرَ نِسْوَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  لَا يَكْفُرُ وَيَسْتَحِقُّ اللَّعْنَةَ، وَلَوْ قَالَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - لَمْ يَكُونُوا أَصْحَابًا لَا يَكْفُرُ وَيَسْتَحِقُّ اللَّعْنَةَ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْفِقْهِ.

مَنْ أَنْكَرَ إمَامَةَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، فَهُوَ كَافِرٌ، وَعَلَى قَوْلِ بَعْضِهِمْ هُوَ مُبْتَدِعٌ وَلَيْسَ بِكَافِرٍ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ كَافِرٌ، وَكَذَلِكَ مَنْ أَنْكَرَ خِلَافَةَ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فِي أَصَحِّ الْأَقْوَالِ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ.

وَيَجِبُ إكْفَارُهُمْ بِإِكْفَارِ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَطَلْحَةَ وَزُبَيْرٍ وَعَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ - وَيَجِبُ إكْفَارُ الزَّيْدِيَّةِ كُلِّهِمْ فِي قَوْلِهِمْ انْتِظَارَ نَبِيٍّ مِنْ الْعَجَمِ يَنْسَخُ دِينَ نَبِيِّنَا وَسَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ.

وَيَجِبُ إكْفَارُ الرَّوَافِضِ فِي قَوْلِهِمْ بِرَجْعَةِ الْأَمْوَاتِ إلَى الدُّنْيَا، وَبِتَنَاسُخِ الْأَرْوَاحِ وَبِانْتِقَالِ رُوحِ الْإِلَهِ إلَى الْأَئِمَّةِ وَبِقَوْلِهِمْ فِي خُرُوجِ إمَامٍ بَاطِنٍ وَبِتَعْطِيلِهِمْ الْأَمْرَ وَالنَّهْيَ إلَى أَنْ يَخْرُجَ الْإِمَامُ الْبَاطِنُ وَبِقَوْلِهِمْ إنَّ جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - غَلِطَ فِي الْوَحْيِ إلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُونَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَهَؤُلَاءِ الْقَوْمُ خَارِجُونَ عَنْ مِلَّةِ الْإِسْلَامِ وَأَحْكَامُهُمْ أَحْكَامُ الْمُرْتَدِّينَ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ. ( كتاب السير، الباب التاسع في احكام المرتدين، مطلب فِي مُوجِبَاتُ الْكُفْرِ أَنْوَاعٌ مِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِالْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ ، ٢ / ٢٦٤، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں