ایک خاتون کے شوہر نے شیعہ مذہب اختیار کر دیا ہے تو اب اس کے نکاح کا کیا معاملہ ہوگا؟
واضح رہے کہ اگر کوئی شیعہ قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیلِ امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتاہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتاہو یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ’’ بدا‘‘ کا عقیدہ رکھتاہو (یعنی -نعوذباللہ- کبھی اللہ تعالیٰ سے بھی فیصلے میں خطا ہوجاتی ہے) یا اس کو تسلیم کرتا ہو یا اس کے علاوہ کوئی کفریہ عقیدہ رکھتا ہو تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا اور ایسے شیعہ کے ساتھ مسلمان خاتون کا نکاح جائز ہی نہیں، اور اگر مذکورہ عقائد میں سے اس کا کوئی عقیدہ نہیں ہے، یا اس کے علاوہ کوئی اور کفریہ عقیدہ نہیں ہے اور مذکورہ عقائد سے بھی براءت کرے اور ایسے عقیدے رکھنے والوں سے بھی براء ت کرے تو سنی لڑکی کا نکاح اس سے جائز ہوگا۔
اس تفصیل کی روشنی میں خاتون کے شوہر کے عقائد کا جائزہ لے لیا جائے، اگر وہ مذکورہ کفریہ عقائد کا حامل ہے تو نکاح ختم ہوچکا ہے، اب جب تک وہ بلا تقیہ سچے دل سے توبہ تائب نہیں ہوجاتا تو اس خاتون سے دوبارہ نکاح بھی نہیں کرسکتا، اور اگر وہ شخص مذکورہ یا ان جیسے کفریہ عقائد یا کا حامل نہیں، بلکہ تقیہ کیے بغیر ان سے براءت کا اظہار کرتا ہے تو نکاح برقرار ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109201886
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن