بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتوں میں تاخیر کاحکم


سوال

میں نے چند علماء سے سنا ہے کہ فرض نمازوں كے بعد سنت فواًپڑھنی چاہیے ،وظیفہ یا تاخیر کرنے والے حضرات کی سنت فوت ہو جاتی ہے، اورسنتوں کی نیت سے پڑھی جانے والی نمازنفل ہوگی ،اور اگر سنت ہوبھی جاۓ تو خلاف ِسنت شمار ہوگی۔ 

جواب

واضح رہے کہ فرض نمازوں کے بعد والی سننِ مؤکدہ میں فرض نمازاداکرنے کے بعد    أللهم أنت السلام إلخكے بقدروقفہ كرنا سنت ہے،اس سے زيادہ تاخيركرنےکی صورت میں سنتوں کی نیت سے پڑھی جانے والی نمازسنت ہی ہوگی، البتہ مسنون وقت میں نہ ہونے کی وجہ سےتاخیر مكروہِ تنزیہی اورخلاف ِاولیٰ ہے ۔طویل اورادووظائف سنتوں کے بعد پڑھنے چاہییں  اور یہ فرض کے بعدہی شمار  ہوتے ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ."
"(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت ((كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام)) وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة."

(كتاب الصلاة،ج:1ص:530،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508102555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں