بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتوں کی قضا کا حکم


سوال

 سنتوں کی قضا  ہے یا نہیں؟  اگر ہے تو اس کی شرعی کیا حیثیت ہے؟  واجب سنت یا جائز اور اگر نہیں ہے تو کراہت کا درجہ متعین کیجیے، اردو  فتاوی میں اس سلسلہ میں کافی تضاد نظر آیا،  بلکہ خود آپ کے آن لائن فتاوی میں تضاد محسوس ہوا،  دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں!

جواب

سنت نماز  کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، یعنی سنت  سے متعلق عام ضابطہ یہی ہے کہ اس کی قضا  نہیں کی جائے گی،  البتہ نص کی وجہ سے   صرف فجر کی سنت  کی قضا اسی دن زوال سے پہلے تک اور ظہر  کی سنن قبلیہ کی قضا  ظہر کے فرض کے بعد ظہر کا وقت ختم ہونے سے پہلے تک کی جاتی ہے، اور دیکھا جائے تو یہ قضا نہیں ہے، کیوں کہ ظہر کے وقت کے اندر ہی ہے، اور اس کے علاوہ دیگر سنت نمازوں کی قضا  نہیں ہوتی۔

علامہ شامی اور دیگر فقہاء نے سنتوں کی قضاء  کے حکم سے متعلق یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ جن سنتوں کی قضا  کی جاتی ہے اُن سنتوں کی قضا  کرنا سنت ہے، یہی سنت نماز کی قضا  کا حکم ہے۔

ہماری ویب سائٹ پر موجود فتاویٰ میں تعارض نہیں ہے، مختلف فتاویٰ میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس کا خلاصہ درج بالا سطور میں لکھ دیا گیا ہے، آپ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں   انہیں دیکھیں گے تو تعارض محسوس نہیں ہوگا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 66):

"(و قضاء الفرض و الواجب و السنة فرض وواجب وسنة) لف ونشر مرتب.

(قوله: و قضاء الفرض إلخ) لو قدم ذلك أول الباب أو آخره عن التفريع الآتي لكان أنسب. وأيضا قوله والسنة يوهم العموم كالفرض والواجب وليس كذلك، فلو قال وما يقضى من السنة لرفع هذا الوهم رملي."

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 80):

"و قيد بسنة الفجر لأن سائر السنن لا تقضى بعد الوقت لا تبعا ولا مقصودا واختلف المشايخ في قضائها تبعًا للفرض."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں