بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتوں کے بعد دعا کا حکم


سوال

سنتوں کے بعد دعا کا کیا حکم  ہے؟

جواب

امام کو فرض نماز کے بعد دعا کرلینی چاہیے، سنتوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا کا اہتمام والتزام کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے بعد سنت اور نفل نماز الگ الگ ادا کی جاتی ہے  ، اور الگ الگ سنت اور نفل پڑھنے کے بعد  سب کا دوبارہ  جمع ہوکر دعا مانگنا  نبی کریم ﷺ، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور سلفِ صالحین سے ثابت  نہیں ہے، بلکہ سلفِ صالحین  کا طریقہ یہی رہا ہے کہ فرض نماز کے بعد   امام اور مقتدی سب مل کر اجتماعی طور پر دعا کرتے تھے،  اور  سنتیں اور نفلیں الگ الگ پڑھا کرتے تھے تو  دعا بھی ہر ایک الگ الگ  کیا کرتا  تھا، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ فرض نماز  کے بعد  تمام لوگ سنن اور نوافل ادا کرنے گھر چلے جاتےاور  پھر دوبارہ  گھر سے مسجد میں دعا کرنے کے لیے  جمع ہوتے، بلکہ اگر نبی کریم ﷺ کو کبھی  کبھار کسی مصلحت یا ضرورت کی وجہ سے مسجد میں سنن ونوافل ادا کرنے کا اتفاق ہوا تب بھی آپ ﷺ نے مقتدیوں کے ساتھ مل کر دعا نہیں فرمائی۔

آج کل بعض علاقوں میں سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کا  عملاً  التزام ہے، سنتوں کے بعد اجتماعی دعاکامعمول بدعت ہونے کی بناپر واجب الترک ہے؛ اس لیے اس کو ترک کردینا ضروری ہے۔  اور فرض نماز کے بعد ہی ایک مرتبہ اجتماعی دعا کرلینی چاہیے، حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ' فیض الباری' میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ  مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔لہٰذا جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں فرض نماز کے بعد ہی دعا کرنی چاہیے، سنن و نوافل کے بعد اجتماعی ہیئت بنا کر دعا کرنا ثابت نہیں، لہٰذا سنن کے بعد اجتماعی دعا سے اجتناب کیا جائے۔

البتہ  انفرادی طور پر اگر کوئی سنن ونوافل کے بعد دعا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اس میں حرج نہیں ہے۔

مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔ 

مشکاۃ  المصابیح   میں ہے:

"و عن كعب بن عجرة قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم أتى مسجد بني عبدالأشهل فصلى فيه المغرب فلما قضوا صلاتهم رآهم يسبحون بعدها فقال: «هذه صلاة البيوت». رواه أبو داود وفي رواية الترمذي والنسائي قام ناس يتنفلون فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «عليكم بهذه الصلاة في البيوت». 

و عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يطيل القراءة في الركعتين بعد المغرب حتى يتفرق أهل المسجد. رواه أبو داود."

(1/105، باب السنن وفضائلھا، ط: قدیمی)

 اعلاء السنن میں ہے:

"و رحم اﷲ طائفة من المبتدعة في بعض أقطار الهند حیث واظبوا علی أن الإمام ومن معه یقومون بعد المکتوبة بعد قرائتهم اللهم أنت السلام و منك السلام الخ ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل یدعوالإمام عقب الفاتحة جهراً بدعاء مرةً ثانيةً والمقتدون یؤمنون علی ذلك وقدجری العمل منهم بذلك علی سبیل الالتزام والدوام حتی أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومین ضروري واجب حتی أنهم إذا وجدوا من الإمام تاخیراً لأجل اشتغاله بطویل السنن والنوافل اعترضوا علیه قائلین: إنا منتظرون للدعاء ثانیاً وهو یطیل صلاته وحتی أن متولي المساجد یجبرون الإمام الموظف علی ترویج هذا الدعاء المذکور بعد السنن والنوافل علی سبیل الالتزام، ومن لم یرض بذلك یعزلونه عن الإمامة و یطعنونه و لایصلون خلف من لایصنع بمثل صنیعهم، وأیم اﷲ! أن هذا أمر محدث في الدین … و أیضاً ففي ذلك من الحرج ما لایخفی وأیضاً فقد مرّ أن المندوب ینقلب مکروهاً إذا رفع عن رتبته لأن التیمن مستحب في کل شيء من أمور العبادات لکن لماخشی ابن مسعود أن یعتقدوا وجوبه أشار إلی کراهته. فکیف بمن أصرّ علی بدعة أومنکر؟… کان ذلك بدعة في الدین محرمة."(۲۰۵/۳).

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں