بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتوں میں کون سی سورتیں پڑھنا ثابت ہے؟ / چاشت کی نماز کا صحیح وقت کیا ہے؟


سوال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پنج گانہ کی سنن میں کون کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ نیز نماز تہجد ، اوابین، اشراق اور چاشت میں ؟

چاشت کا صحیح وقت کیا ہے ؟عام طور پر اس سلسلے میں تردد رہتا ہے ،کوئی حتمی بات آج تک کسی سے معلوم نہ ہو سکی ۔

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےفجرومغرب کی سنتوں کی پہلی رکعت میں قل یاایھاالکافرون،اوردوسری رکعت میںقل هوالله احد،پڑھناثابت ہے۔

"وَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ: (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ) و (قل هُوَ الله أحد) رَوَاهُ فِي شرح السّنة."

(مشكاة المصابيح (1/ 268)

اسی طرح فجر کی سنتوں کی پہلی رکعت میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر  136 اور دوسری رکعت میں سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر  64 پڑھنا بھی ثابت ہے۔ 

چاشت کا وقت آفتاب  اچھی طرح طلوع ہونے کے بعد(طلوع ہونے کے تقریباً 15 منٹ بعد) سے زوال سے پہلے  تک باقی رہتا ہے،جب کہ اشراق کا وقت بھی یہی ہے، لیکن اس کا افضل  وقت  یہ ہے کہ  طلوعِ آفتاب سے زوال تک کے وقت کے ایک چوتھائی  وقت گزرنے کے بعد چاشت کی نماز پڑھی جائے۔یعنی اشراق طلوع آفتاب کے پندرہ بیس منٹ بعد پڑھی جائے اور چاشت نو بجے کے بعد پڑھی جائے۔

تہجد کی  نماز میں کوئی مخصوص سورت پڑھنے کی فضیلت نہیں ہے، البتہ جتنی زیادہ قراءت ہوگی، اتنا اجر ہوگا، نبی کریم ﷺ سے تہجد کی نماز میں سورۂ بقرہ، سورۂ آلِ عمران، سورۂ نساء اور سورۂ مائدہ ایک ہی رات میں پڑھنا منقول ہے۔  نیز واضح ہو کہ تہجد سمیت  ہر انفرادی نماز میں  اس طور پر  لمبی قراءت کرنا افضل ہےکہ دونوں رکعتوں میں  تقریبًا   برابر قراءت ہو۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام ميں ہے  :

"(ولايوجه) أي لايضم إلى الثناء قوله: إني وجهت وجهي إلى آخره خلافًا لأبي يوسف فإن عنده إذا فرغ من التكبير يقول: إني وجهت وجهي للذي ... إلخ وعندهما لو قاله قبل التكبير لإحضار القلب فهو حسن."

(ج:1، ص:68)

فتاوي شامي ميں هے:

 "ومن التعليل أن المنفرد يسوي بين الركعتين في الجميع اتفاقا شرح المنية. أقول: وبما مر من أن الإطالة المذكورة مسنونة إجماعا، ومثله في التتارخانية علم أن ما في شرح الملتقى للبهنسي من أنها واجبة إجماعا غريب أو سبق قلم. وقال تلميذه الباقاني في شرح الملتقى: لم أجده في الكتب المشهورة في المذهب.

(فصل في القراة،،ج:1، ص:542، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فتاوي شامي ميں هے:

"(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال، ووقتها المختار بعد ربع النهار.  (قوله: من بعد الطلوع) عبارة شرح المنية: من ارتفاع الشمس. (قوله: ووقتها المختار) أي الذي يختار ويرجح لفعلها، وهذا عزاه في شرح المنية إلى الحاوي، وقال: لحديث زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم  قال: «صلاة الأوابين حين ترمض الفصال». رواه مسلم. وترمض بفتح التاء والميم: أي تبرك من شدة الحر في أخفافها." 

 (باب الوتر وانوافل،ج:2، ص:22، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر) 

 "  اوابین کی نماز چھ رکعت ہیں اور جو شخص یہ نماز پڑھتا ہے اس کو بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔

سنن الترمذي ت بشار  ميں هے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً"

یعنی جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات (نفل) ادا کرے اور ان کے درمیان کوئی بری (دنیاوی) بات نہ کرے تو یہ بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گی۔

(ج:1، ص:559، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں