بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت یا نفل پڑھنے والے کی اقتدا میں فرض پڑھنا


سوال

1):یہاں نماز سے پہلے یا بعد میں سنت  پڑ ھ رہا ہوتا ہوں تو کوئی عربی مسجد میں لیٹ آ کے میرے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے کہ میں جماعت کرواوں اگر میں سنت یا نفل پڑ رہا ہوں کوئی آ کے میرے پیچھے فرض کی نیت باند ھ دے تو یہ جائز ہے.میں امامت شروع کر دوں.؟

2):یہاں جماعت کی نماز کے سلام کے بعدجو رکعتیں رہ جاتیں ہیں.وہ وہاں سے جماعت شروع کر سکتے ہیں؟مثلاً: اگر 5 افراد نماز میں 2 رکعت لیٹ آجائیں اور جماعت میں شامل ہو جائیں. امام کے سلام پھیرنے کے بعد یہ 5 افراد ایک کا ہاتھ پکڑ کر آگے کر دیتے ہیں وہ باقی 2 رکعت کی امامت کرتا ہے کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ احناف کے ہاں امام مقتدی کی نماز کا ضامن ہوتا ہے؛ اس لئے لازمی ہے کہ دونوں کی نماز ایک ہو، یا امام کی نماز اعلیٰ درجہ کی ہو، مثلاً امام فرض نماز ادا کررہا ہو اور مقتدی نفل کی نیت کرلے۔
جبکہ شوافع کے ہاں امام مقتدی کی نماز کا ضامن نہیں  ہوتا ؛ اس لئے دونوں کی نماز ایک ہونا، یا امام کی نماز اعلیٰ درجہ کی ہونا لازم نہیں بلکہ امام اگر نفل ادا کر رہا ہو اور مقتدی فرض نماز کی نیت کرلے تو بھی یہ امامت  درست ہے ۔

1 ):۔ صورت مسئولہ  میں دیر سے  آنے والا شخص  سائل کے ساتھ کھڑے  ہو کر تھپکی دیتا ہے  کہ میں آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنا  چاہتا ہوں  ،تو   سائل ان کے مذہب کےمطابق اس نمازی  کے لیے امام بن گیا ہے، البتہ اگر امام(سائل) سنت یا نفل پڑھ رہا ہے، تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی ہے، جب کہ امام شافعی کے نزدیک ہوجاتی ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر آپ سنت یا نفل پڑھ رہے ہیں، تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد اقتداء کرنے والے کو بتادیں کہ میں سنت یا نفل پڑھ رہا تھا، تاکہ اگر اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو، اور وہ حنفی ہے یا وہ جس امام کی تقلید کرتا ہے، ان کے نزدیک سنت پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی ہے، تو وہ اپنی نماز دہرالے، اور اگر وہ کسی ایسے امام کا مقلد ہے، جن کے یہاں سنت پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز ہوجاتی ہے، تو آپ کو اس سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

2):۔ اس صورت میں مسبوقین  کا بقیہ نمازکو پورا کرنے کیلئے ایک مسبوق کو آگے کرکے اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا احناف کے ہاں جائز نہیں ،البتہ شوافع اور حنابلہ کے ہاں مسبوقین  کے لیے مسبوق امام بن سکتا ہے۔  

الدرالمختار میں ہے:

"ولامفترض بمتنفل وبمفترض فرض آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا، وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً."

(باب الامامة، ج:1، ص:579، ط:دارالفکر، بیروت) 

الفقه على المذاهب الأربعة میں ہے:

"الحنفية قالوا : لا يصح الاقتداء بالمسبوق سواء أدرك مع إمامه ركعة أو أقل منها فلو اقتدى اثنان بالإمام وكانا مسبوقين وبعد سلام الإمام نوى أحدهما الاقتداء بالآخر بطلت صلاة المقتدي أما إن تابع أحدهما الآخر ليتذكر ما سبقه من غير نية الاقتداء فإن صلاتهما صحيحة لارتباطهما بإمامهما السابق.

 الشافعية قالوا : لا يصح الاقتداء بالمأموم ما دام مأموما فإن اقتدى به بعد أن سلم الإمام أو بعد أن نوى مفارقته - ونية المفارقة جائزة عندهم صح الاقتداء به وذلك في غير الجمعة أما في صلاتها فلا يصح الاقتداء َ الحنابلة قالوا : لا يصح الاقتداء بالمأموم ما دام مأموما فإن سلم إمامه وكان مسبوقا صح اقتداء مسبوق مثله به إلا في صلاة الجمعة فإنه لا يصح اقتداء المسبوق بمثله."

(ج:1،ص:656، ط:بیروت)

وفیہ ایضا:

"ومن شروط الإمامة أن لا يكون الإمام أدنى حالا من المأموم فلا يصح اقتداء مفترض بمتنفل إلا عند الشافعية فانظر مذهبهم تحت الخط ( الشافعية قالوا : يصح اقتداء المفترض بالمتنفل مع الكراهة)."

(ج:1،ص:380 ،ط:بیروت)

   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں